تثلیثؔ ان سے صرف اسلامی توحید کا مواخذہ ہوگا۔ جیسا کہ پادری فنڈل نے میزان الحق میں یہ صاف اقرار کیا ہے۔ پس *** ہے ایسے مذہب پر جس کے اصل الاصول کی سچائی پر عقل گواہی نہیں دیتی۔ اگر انسان کے کانشنس اور خدا داد عقل میں تثلیث کی ضرورت فطرتاً مرکوز ہوتی تو ایسے لوگوں کو بھی ضرور تثلیث کا مواخذہ ہوتا جن تک تثلیث کا مسئلہ نہیں پہنچا حالانکہ عیسائی عقیدہ میں بالاتفاق یہ بات داخل ہے کہ جن لوگوں تک تثلیث کی تعلیم نہیں پہنچی ان سے صرف توحید کا مواخذہ ہوگا۔ اس سے ظاہر ہے کہ توحید ہی وہ چیز ہے جس کے نقوش انسان کی فطرت میں مرکوز ہیں۔
باقی رہا یسوع کی خدائی کو منقولات سے ثابت کرنا۔ سو جنگ مقدس میں آتھم مقتول ہرگز ثابت نہ کر سکا کہ یہی تعلیم جو انجیل کے حوالہ سے اب ظاہر کی جاتی ہے موسیٰ کی توریت میں موجود ہے ظاہر ہے کہ اگر باپ بیٹے روح القدس کی تعلیم جو دوسرے لفظوں میں تثلیث کہلاتی ہے بنی اسرائیل کو دی جاتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ سب کے سب اس کو بھول جاتے جس تعلیم کو موسیٰ نے چھ سات لاکھ یہود کے سامنے بیان کیا تھا اور بار بار اس کے حفظ رکھنے کے لئے تاکید کی تھی اور پھر حسب زعم عیسائیاں متواتر خدا کے تمام نبی یسوع کے زمانہ تک اس تعلیم کو تازہ کرتے آئے ایسی تعلیم یہود کو کیونکر بھول سکتی تھی۔
کیا یہ بات ایک محقق کو تعجب میں نہیں ڈالتی کہ وہ تعلیم جو لاکھوں یہودیوں کو دی گئی تھی اور خدا کے نبیوں کی معرفت ہر صدی میں تازہ کی گئی تھی جو اصل مدار نجات تھی اس کو یہود کے تمام فرقوں نے بھلا دیا ہو حالانکہ یہود اپنی تالیفات میں صاف گواہی دیتے ہیں کہ ایسی تعلیم ہمیں کبھی نہیں ملی۔ اور ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہود اس بات میں ضرور سچے ہیں۔ کیونکہ اگر تنزّل کے طور پر یہ بھی فرض کرلیں کہ صرف یسوع کے زمانہ میں یہود میں تثلیث کی تعلیم پر عمل تھا۔ تب بھی یہ فرض صریح باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ اگر ایسا عمل ہوتا تو ضرور اس کے آثار یہود کی منقولات اور تالیفات میں باقی رہ جاتے اور غیر ممکن تھا کہ یہود یک دفعہ اس تعلیم سے روگرداں ہو جاتے کہ جو تعامل کے طور پر برابر ان میں چلی آئی