وَھُم مِن فشل۔* وَ اِذا قیل لَھم اٰمِنوا کما اٰمن النّاسُ قالوا انؤمِن
کَمَا آمَنَ السّفھاءُ الَا اِنّھم ھُم السّفھَاءُ ولٰکِن لَّا یعلمون۔ قل
اِن کنتم تحِبّون اللّٰہ فَاتبِعُونی یُحبِبْکمُ اللّٰہ۔ قِیل ارجِعُوا اِلی اللّٰہ
فلا ترجعون۔ وَقیل استحوذوا فلا تستحوذون۔ الحَمدُ للّٰہ الّذی
جَعَلکَ المسِیح ابنَ مَریَمَ۔ الفتنۃ ھٰہُنا فاصبر کما صَبَرَ اُولو العزم
تبت یدا ابی لَھَبٍ وَّتبّ۔ ماکان لہٗ اَنْ یدخل فیھا اِلّا خائفًا۔ وَ
مَا اَصَابک فَمِنَ اللّٰہ۔ أَ َ لا اِنّھا فتنۃ من اللّٰہ لیحبّ حُبّا جمّا۔
حُبّا مِن اللّٰہ العَزیز الاکرم۔ عَطَاءً غیر مجذوذ۔ وقت الابتلاء
اور وہ لوگ فشل سے۔ اور جب ان کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسا کہ اچھے آدمی ایمان لائے۔ تو جواب میں
کہتے ہیں کہ کیا اس طرح ایمان لائیں جیسا کہ سفیہ اور بیوقوف ایمان لائے۔ خوب یاد رکھو کہ درحقیقت بیوقوف
اور سفیہ یہی لوگ ہیں مگر انہیں معلوم نہیں کہ ہم کیسی غلطی پر ہیں۔ ان کوکہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو
تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ کہا گیا کہ تم رجوع کرو سو تم نے رجوع نہ کیا اور کہا گیا کہ تم اپنے
وساوس پر غالب آجاؤ سو تم غالب نہ آئے۔ سب تعریف خدا کو ہے جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا۔ اس جگہ فتنہ ہے۔ سو
اولو العزم لوگوں کی طرح صبر کر۔ ابی لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ آپ بھی ہلاک ہوگیا۔ اس کو نہیں چاہئے تھا کہ وہ اس
فتنہ میں دخل دیتا یعنی اس کا بانی ہوتا مگر ڈرتے ہوئے۔ اور تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی مگر اسی قدر جو خدا نے مقرر کی۔ یہ فتنہ
خدا کی طرف سے ہے تا وہ تجھ سے بہت ہی پیار کرے یہ خدا کا پیار کرنا ہے جو غالب اور بزرگ ہے اور یہ پیار وہ عطا ہے جو کبھی
یہ جو فرمایا کہ تو ہمارے پانی میں سے ہے اور وہ لوگ فشل سے۔ اس جگہ پانی سے مراد ایمان کا پانی، استقامت کا پانی، تقویٰ کا پانی، وفا کا پانی، صدق کا پانی، حُبّ اللّٰہ کا پانی ہے۔ جو خدا سے ملتا ہے اور فشل بزدلی کو کہتے ہیں جو شیطان سے آتی ہے۔ اور ہریک بے ایمانی اور بدکاری کی جڑ بزدلی اور نامردی ہے۔ جب قوتِ استقامت باقی نہیں رہتی تو انسان گناہ کی طرف جھک جاتا ہے۔ غرض فشل شیطان کی طرف سے ہے اور عقائد صالحہ اور اعمال طیبہ کا پانی خدا تعالیٰ کی طرف سے۔ جب بچہ پیٹ میں پڑتا ہے تو اس وقت اگر بچہ سعید ہے اور نیک ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر روح القدس کا سایہ ہوتا ہے اور اگر بچہ شقی ہے اور بد ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر شیطان کا سایہ ہوتا ہے اور شیطان اس میں شراکت رکھتا ہے اور بطور استعارہ وہ شیطان کی ذُرّیت کہلاتی ہے اور جو خدا