خداؔ نے اپنے وعدہ کے موافق اس کے وجود کو اس کے ہم مذہب لوگوں کی نظر سے چھپا لیا اور جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا ویسا ہی ظہور میں آیا۔ تیس۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء تک ہماری طرف سے اس کو تبلیغ ہوتی رہی کہ شائد وہ خدا تعالیٰ سے خوف کرکے سچی گواہی ادا کرے۔ پھر ہم نے تبلیغ کو چھوڑ دیا اور خداتعالیٰ کے وعدہ کے انتظار میں لگے سو آتھم صاحب نے ۳۰ ؍دسمبر ۱۸۹۵ء میں سے ابھی سات مہینے ختم نہ کئے تھے کہ قبر میں جا پڑے۔
یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں جس کو لوگ عبرت کی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ جن کے دل سیاہ اور آنکھیں اندھی ہیں وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح خدا تعالیٰ کے نشانوں کو چھپا دیں۔ چنانچہ پرچہ کشف الحقائق بمبئی یکم اگست ۱۸۹۶ء جو حسام الدین عیسائی کی طرف سے نکلتا ہے اس میں اسی پرانی عادت جھوٹ کی نجاست خوری کی وجہ سے چند سطریں صفحہ ۱۰۸ پرچہ مذکور میں لکھی ہیں جو مناسب سمجھ کر ذیل میں ان کا جواب دیا جاتا ہے۔
قولہ۔ ہم نے سنا ہے کہ جنگ مقدس نہایت مفید اور عمدہ کتاب ہے اس میں قادیانی صاحب کے ناجائز خیالات کی پردہ دری آتھم صاحب نے نہایت شائستگی سے کی ہے۔
اقول۔ بیشک اس قدر تو میں بھی قائل ہوں کہ جنگ مقدس کا واقعی نقشہ ان لوگوں کو بلاشبہ مفید ہے جو غور اور انصاف کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ لیکن جو مردہ پرست ہیں اور وہ مردہ پرستی کی عادت ان کی طبیعت کی جز ہوگئی ہے ان کو مفید نہیں۔ کیونکہ وہ آنکھیں رکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور کان رکھتے ہوئے نہیں سنتے اور دل رکھتے ہوئے نہیں سمجھتے۔
ظاہر ہے کہ جنگ مقدس کے مباحثہ میں عیسائیوں سے بڑا بھاری مطالبہ یہ تھا کہ وہ ابن مریم کی خدائی کو عقل اور نقل کی رو سے ثابت کریں۔ سو عقل تو دور سے ایسے عقیدہ پر نفرین کرتی تھی۔ اس لئے انہوں نے عقل کا نام ہی نہ لیا۔ کیونکہ عقل اسلامی توحید تک ہی گواہی دیتی ہے اور اسی لئے تمام عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ اگر ایک گروہ ایسے کسی جزیرہ کا رہنے والا ہو جس کے پاس نہ قرآن پہنچا ہو اور نہ انجیل اور نہ اسلامی توحید پہنچی ہو اور نہ نصرانیت کی