دی ؔ گئی ہے اور وہ بہرحال انکار پر جمے رہنے کی حالت میں آتھم صاحب کو پکڑ لے گی چنانچہ ہمارا آخری اشتہار جو آتھم صاحب کے قسم کھانے کے لئے دیا گیا اس کی تاریخ ۳۰ ؍دسمبر ۱۸۹۵ء ہے اس کے بعد آتھم صاحب کا انکار کمال کو پہنچ گیا کیونکہ انہوں نے باوجود اس قدر ہمارے اشتہارات کے کہ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا نکلا یہاں تک کہ سات اشتہارات دیئے گئے مگر پھر بھی انہوں نے وہ گواہی جو ان پر فرض تھی ادا نہیں کی اس لئے خدائے تعالیٰ نے ان کو اس پیشگوئی کے اثر سے خالی نہ چھوڑا۔ چنانچہ سات اشتہار پر سات دفعہ انکار کرنے کے بعد آخر ساتویں اشتہار سے سات مہینے پیچھے موت* ان پر وارد ہوگئی اور وہ ہاویہ کے عذاب سے پہلے بھی نجات یافتہ نہ تھے اس وقت سے جو ان کو پیشگوئی سنائی گئی اس وقت تک کہ ان کی جان نکل گئی غضب الٰہی کی آگ ہر وقت ان کو جلا رہی تھی۔ اور ایک خوف اور بے آرامی اور بے چینی ان کے لاحق حال ہوگئی تھی۔ پس کچھ شک نہیں کہ وہ پیشگوئی کے وقت سے عذاب الٰہی میں پکڑے گئے جیسے کوئی سخت بیماری میں پکڑا جاتا ہے اور ان کا آرام اور خوشی سب جاتی رہی۔ سو الحمدللّٰہ والمنّہ کہ جب آتھم صاحب نے اپنے رجوع الی الحق سے سات دفعہ انکار کیا تو خدا نے اس دروغ گوئی کی سزا میں ان کو جلد لے لیا۔ ناظرین یاد رکھیں کہ آخری پیغام جو آتھم صاحب کو قسم کھانے کے لئے پہنچایا گیا وہ اشتہار ۳۰؍ دسمبر ۱۸۹۵ء کا تھا۔ اس میں یہ غیرت دلانے والے الفاظ بھی تھے کہ اگر آتھم کو عیسائی لوگ ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں اور ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی وہ قسم نہیں کھائیں گے۔ سو چونکہ آتھم نے سچی قسم سے منہ پھیرا اور نہ چاہا کہ حق ظاہر ہو سو جیسا کہ اس نے حق کو چھپایا حاشیہ۔ بلاشبہ آتھم کے دوستوں کو اس کی موت کا بہت ہی غم ہوا ہوگا بلکہ ہم نے سنا ہے کہ ایک عیسائی بھولے خان نامی اس کی موت کے غم سے مر ہی گیا۔ اور اس کو آتھم کی ناگہانی موت نے ایسے درد سے پکڑا کہ اس نے خود کہہ دیا کہ یقیناً اب میرا جینا مشکل ہے۔ چنانچہ دل پر سخت صدمہ پہنچنے کی وجہ سے وہ مر ہی گیا اور پھر عیسائیوں نے اپنی قدیم عادت جھوٹ کی وجہ سے اس کی موت کو اس کی کرامت بنا لیا۔ بہتر ہو کہ اس قسم کی کرامت دوسرے شر یر پادریوں سے بھی ظاہر ہو تا خس کم جہاں پاک کی مثال صادق آوے۔ منہ