سومؔ ۔ اور یاد رہے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم میں کامل عذاب )یعنی موت( کی بنیادی اینٹ رکھ دی گئی ہے اور وہ عنقریب بعض تحریکات سے ظہور میں آجائے گی خدا تعالیٰ کے تمام کام اعتدال اور رحم سے ہیں اور کینہ ورانسان کی طرح خواہ نخواہ جلد باز نہیں۔ دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۱۰۔
چہارم ۔ اس ہماری تحریر سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ جو ہونا تھا وہ سب ہوچکا اور آگے کچھ نہیں۔ کیونکہ آئندہ کے لئے الہام میں یہ بشارتیں ہیں۔ وَنُمَزُِّ ق الْاَعْدَآءَ کُلَّ مُمَزَّقٍ۔ ہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے یعنی اپنی حجت کامل طور پر ان پر پوری کردیں گے۔
دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۱۵۔
پنجم ۔ اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کرکے دنیا کو دھوکہ دینا چاہا اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں۔ یعنی اُس کی موت کے دن۔ دیکھو اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ صفحہ ۱۱۔
ششم ۔ مگر تاہم یہ کنارہ کشی آتھم کی )یعنی قسم سے انکار کرنا( بے سود ہے کیونکہ خدا تعالیٰ مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑتا۔ نادان پادریوں کی تمام یا وہ گوئی آتھم کی گردن پر ہے۔ اگرچہ آتھم نے نالش اور قسم سے پہلوتہی کرکے اپنے اس طریق سے صاف جتلایا کہ ضرور اس نے رجوع بحق کیا۔ اور تین حملوں کے طرز وقوع سے بھی جن کا وہ مدعی تھا کھلے طور پر بتلا دیا کہ وہ حملے انسانی حملے نہیں تھے مگر پھر بھی آتھم اس جرم سے بری نہیں ہے کہ اس نے حق کو علانیہ طور پر زبان سے ظاہر نہیں کیا۔ دیکھو رسالہ ضیاء الحق مطبوعہ مئی ۱۸۹۵ء صفحہ ۱۶۔
ایسا ہی ان رسائل اور اشتہارات کے اور مقامات میں بار بار لکھا گیا ہے کہ موت میں صرف مہلت