اس مقام کو پڑھ کر ہریک غیرت مند نے پانچوں انگلیاں منہ میں ڈال لیں اور سب توبہ توبہ کر اٹھے کہ دنیا میں ایسی تعلیمیں بھی
ہیں کہ بجائے تہذیب اور پاکیزگی سکھلانے کے اپنے پیروؤں کو پہلی حالت سے بھی نیچے گراتی اور ان کی نیک چلنی کا ستیاناس کرتی ہیں میرے دل پر اس وقت بہت ہی صدمہ گذرا اور قریب تھا کہ
میں آہ مار کر روتا اس خیال سے کہ جن لوگوں کی کتاب کی ایسی تعلیم ہے۔ وہ بھی اسلام کی پاک تعلیم پر اعتراض کرتے اور اس زناکاری کی حالت پر راضی ہو کر تعدد ازواج کے اس مسئلہ پر شور
مچاتے ہیں جو نکاح کی پابندی سے دراصل انہیں ضرورتوں کی بناء پر ہے جن ضرورتوں نے ان قوموں کی حرام کاری تک نوبت پہنچائی۔ پاک طریق پر اعتراض اور ٹھٹھا اور ناپاکی اور دیوثی پر راضی
ہونا اور جھوٹے طور پر دوسرے کے نطفہ کو اپنا نطفہ قرار دینا کہ یہ میری ہی اولاد ہے کس قدر سچائی اور حیا اور شرم اور غیرت کا خون کرنا ہے مگر میں اس افسوس کو اندر ہی اندر کھا گیا اور
چاہا کہ قادیان کے آریوں کو بوجہ حق ہمسائیگی کچھ نصیحت کروں اس لئے میں نے ایک مجلس مقرر کر کے ان میں سے چار آریوں کو بلایا اور ان کے سامنے ستیارتھ پرکاش کا مقام خاص پیش کر کے
نیوگ کی حقیقت پوچھی گئی سو پہلے تو بعض
نے کتاب پر ہی اعتراض کیا کہ یہ پہلے چھاپے کی ستیارتھ پرکاش ہے جو غلط ہے اور جب بتلایا گیا اور دکھلایا گیا کہ صاحب یہ وہی دوسرا چھاپا
ہے تو پھر انہوں نے اپنے دلوں میں یہ گمان کیا کہ مسلمانوں میں سے اس کو کون پڑ ھ سکتا ہے کیونکہ ناگری ہے اس لئے بعض نے چالاکی سے جواب دیا کہ صرف نیوگ بیوہ کے بارے میں ہے اور
اس کی بھی اصل صورت کو بدل ڈالا تا وہ کارروائی زنا کی ہم شکل ثابت نہ ہو مگر افسوس کہ جب وہ گندی عبارتیں خاوند والی عورتوں کے متعلق کی ان کو پڑھ کر سنائی گئیں تو کچھ بھی شرم ان میں
پیدا نہ ہوئی بلکہ بعض نے کہا کہ ہم نیوگ کی اس قسم پر بھی راضی ہیں سو ہم ان کی ان بے حیائی کی باتوں کو سنکر چپؔ ہی رہ گئے اور آخر ایک عام ہمدردی نے جوش مارا لہٰذا ہمیں اس للّہی جوش
نے اس بات پر آمادہ کیا کہ اس بارے میں ایک اشتہار شائع کریں تا شاید کسی طالب حق کو فائدہ پہنچے چنانچہ ہم نے ۳۱ جولائی ۱۸۹۵ء کو ایک اشتہار نیوگ کے متعلق محض ہمدردی بنی نوع کی
غرض سے شائع کر دیا۔ اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ ہماری نیت اس اشتہار کے جاری کرنے سے بجز اس کے اور