پھر اولاد کی بھی کمی نہیں اور ساتھ اس کے بے قیدی اور آزادی بھی۔ جب میری مجلس میں یہ مقام ستیارتھ پرکاش کا پڑھا گیا تو بعض دوست بے اختیار بول اٹھے کہ دیکھو یہ صاف زنا ہے کیونکہ جس حالت میں نکاح نہیں اور بچہ گود لینا اسی لئے موقوف رکھا گیا کہ شہوت رانی مقصود بالذات ہے اور وہ شہوت نکاح کے ذریعہ سے پوری نہیں کی گئی تو پھر اگر یہ زنا نہیں تو اور کیا ہے بعض نے یہ بھی کہا کہ اس طریق نیوگ میں اس ہدایت کی رو سے بیوہ یہ بھی اختیار رکھتی ہے کہ اگر بیوہ صبح کو کسی غیر مرد سے ہم بستر ہو کر اس کی منی پتلی اور ناقابل اولاد پاوے تو دوپہر کو کسی اور بیرج داتا کے ساتھ سووے اور اگر دوپہر والا بھی اس نقص سے خالی نہ ہو اور ایسی تسلی نہ کر سکا ہو جس سے اولاد کی امید ہو سکتی ہے تو شام کو کسی اور سے ہم بستر ہو جاوے اور اگر شام والا بھی نا تمام نکلے تو رات کو اسی آزمائش کیلئے کسی اور جوان کے آگے پڑے پس جو عورت ایک ہی دن میں چار غیر آدمی سے سوائے طریق جائز نکاح ہم بستر ہو اگر وہ زانیہ نہیں تو پھر دنیا میں زنا کوئی چیز نہیں دیکھو اور خوب غور کرو کہ جس حالت میں مرد اور عورت دونوں کو اقرار ہے کہ ان میں نکاح کا بالکل تعلق نہیں تو پھر ہریک سمجھ سکتا ہے کہ ایسی مقاربت کا کیا نام رکھنا چاہئے اور اس میں اور بیسوا کے پیشہ میں کیا فرق ہے۔ عدم نکاح کی صورت کو خوب یاد رکھو۔ لیکن میں نے اس مقام پر بھی اپنے دوستوں سے اتفاق رائے نہ کیا اور دل میں یہ خیال گذرا کہؔ اگرچہ واقعی اس طور میں زنا کی صورت تو ثابت ہے لیکن ممکن ہے کہ پنڈت دیانند کو اس مسئلہ کے بیان کرنے میں کچھ غلطی ہوگئی ہو اور شاید دراصل وید میں لکھا ہو کہ بیوہ اپنی حسب مرضی کسی سے نکاح کرلے مگر میرے دوستوں نے جب کھول کھول کر اس مقام کی عبارتیں پڑھیں اور خوب غور کی گئی۔ تو یہ تو یقین ہوگیا کہ دوسرا نکاح تو ہندو مذہب میں قطعاً حرام ہے اور پھر جب نکاح نہیں تو یہ نیوگ دوسرے لفظوں میں حرام کاری کا نام ہے مگر تاہم میری طبیعت نے نہ چاہا کہ صرف بیوہ کے نیوگ پر اپنے اعتراض کی بنا کروں اس لئے میں نے کہا کہ آگے پڑھو یہاں تک کہ وہ مقام آگیا جس میں آریہ صاحبوں کا وید ایک زندہ خصم والی عورت کو بھی ہدایت کرتا ہے کہ وہ اولاد نہ ہونے کی حالت میں کسی غیر سے ہم بستر ہو