یہ کہ جس مرد کی بیوی نہ رہے یا جس بیوی کا خاوند نہ رہے وہ رہبانیت اختیار کرلیں یعنی تارک اور تارکہ ہوکر زندگی بسر کریں اور قوم کی ترقی رکھنے کے واسطے کوئی لڑکا اپنی ذات کا متبنّٰیکرلیں اس لڑکے سے خاندان باقی رہے گا اور زنا بھی نہ ہوگا )یعنی نیوگ کی حاجت نہیں پڑے گی( لیکن اگر رہبانیت ۱؂ اختیار نہ کرسکیں اور جوش شہوت فروؔ نہ ہو تب نکاح تو کسی طرح کرنا ہی نہیں چاہئے۔ ہاں نیوگ سے شہوت فرو کریں۔ اور اولاد حاصل کرلیں۔۲؂ یہ ہدایت بیوہ اور رنڈوے مرد کے لئے ہے کہ جب عورت مرگئی یا مرد ہی مرگیا تو گویا عیال داری کی صف خدا نے آپ ہی لپیٹ دی اب مجرد رہو اور خوش رہو ایک مدت نکاح کر کے بھی دیکھ لیا اور حظ اٹھا لیا اب سبکدوش ہوکر زندگی بسر کرو۔ اور اگر شہوت زور کرے اور رہا نہ جائے تو نکاح کا تو نام مت لو کہ وہ وید کے رو سے حرام ہے ہاں چپکے سے ایک مرد کسی دوسری عورت سے یا ایک عورت کسی دوسرے مرد سے یارانہ جوڑ لیوے اور اگر اس سے کامیابی نہ ہو تو دوسرا یا تیسرا خواہ دس ۱۰ تک نوبت پہنچے کچھ مضائقہ نہیں کہ اس میں وید کی آگیا ہے یہی تو وہ کارروائی ہے جس کا وید مقدس میں نام نیوگ ہے اس کے آگے نکاح اور تعدد ازواج کیا چیز ہے یہ بہت عمدہ طریق ہے کہ بیوی خاوند کے مرنے کے بعد یا خاوند بیوی کے مرنے کے پیچھے بظاہر جوگی یا جوگن ہی بنی رہی اور شہوت رانی کا کام ایسا عمدہ چلتا گیا کہ نکاح والوں کو بھی پیچھے ڈال دیا کیونکہ ایسی عورت جو نکاح کی پابند ہو وہ صرف ایک خاوند کے قید میں رہے گی مگر نیوگ میں تو یہ لطف ہے کہ ہریک نئی رات میں نیا آشنا اس کو مل سکتا ہے اور ۱؂ حاشیہ: پنڈت صاحب کا یہ مقولہ کہ اوروبھی چار بھی نہ ہوگا یعنی تارکہ رہنے اور لڑکا گود لینے سے مفت میں لڑکا ہاتھ آجائے گا۔ اور زنا تک نوبت نہ پہنچے گی۔ اس مقولہ سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ پنڈت صاحب اپنے دل میں بیوہ کے نیوگ کو بھی زنا سمجھتے ہیں ورنہ اگر ان کے نزدیک نیوگ زنا نہیں تو نیوگ نہ کرنے کی حالت میں اس قید کی کیا ضرورت تھی معلوم ہوتا ہے کہ کانشنس کے جوش نے یہ کلمہ ان کے منہ سے نکلوایا ہے جو ان کے دوسرے بیانات کے مخالف ہے۔ منہ نوٹ اگر نیوگ سے شہوت رانی منظور نہیں تھی تو کیوں متبنّٰیبنانے پر کفایت نہیں کی گئی۔ منہ ۲؂ اس تقریر سے معلوم ہوا کہ نیوگ صرف شہوت رانی کی غرض سے ہو سکتا ہے مگر اتنی شہوت رانی کریں کہ اس کے ضمن میں اولاد بھی ہو جائے۔ منہ