جاتےؔ ہیں ویسے ہی کینے بھی ساتھ ترقی پکڑتے جاتے ہیں سو اس نومیدی کے وقت میں میرے نزدیک ایک نہایت سہل و آسان طریق فیصلہ ہے اگر پادری صاحبان قبول کرلیں اور وہ یہ ہے کہ اس بحث کا جو حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے خدا تعالیٰ سے فیصلہ کرایا جائے- اول مجھے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ایسا خدائی فیصلہ کرانے کے لئے سب سے زیادہ مجھے جوش ہے اور میری دلی مراد ہے کہ اس طریق سے یہ روز کا جھگڑا انفصال پا جائے۔ اگر میری تائید میں خدا کا فیصلہ نہ ہو تو میں اپنی کل املاک منقولہ وغیر منقولہ جو دس ۱۰ ہزار روپیہ کی قیمت سے کم نہیں ہوں گی عیسائیوں کو دے دوں گا اور بطور پیشگی تین ہزار روپیہ تک ان کے پاس جمع بھی کرا سکتا ہوں۔ اس قدر مال کا میرے ہاتھ سے نکل جانا میرے لئے کافی سزا ہوگی۔ علاوہ اس کے یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے دستخطی اشتہار سے شائع کردوں گا کہ عیسائی فتح یاب ہوئے اور میں مغلوب ہوا اور یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اس اشتہار میں کوئی بھی شرط نہ ہوگی لفظاً نہ معناً۔ اور ربَّانی فیصلہ کے لئے طریق یہ ہوگا کہ میرے مقابل پر ایک معزز پادری صاحب جو پادری صاحبان مندرجہ ذیل میں سے منتخب کئے جائیں*۔ میدان مقابلہ کے لئے جو تراضی طرفین سے مقرر کیا جائے طیّار ہوں۔ پھر بعد اس کے ہم دونوں معہ اپنی اپنی جماعتوں کے میدان مقررہ میں حاضر ہو جائیں اور خدائے تعالیٰ سے دعا کے ساتھ یہ فیصلہ چاہیں کہ ہم دونوں میں سے جو شخص درحقیقت خداتعالیٰ کی نظر میں کاذب اور مورد غضب ہے خدا تعالیٰ ایک سال میں اس کاذب پر وہ قہر نازل کرے جو اپنی غیرت کے رو سے ہمیشہ کاذب اور مکذب قوموں پر کیا کرتا ہے جیسا کہ اس نے فرعون پر کیا نمرود پر کیا اور نوح کی قوم پر کیااور یہود پر کیا۔ حضرات پادری صاحبان یہ بات یاد رکھیں کہ اس باہمی دعا میں کسی خاص فریق پر نہ *** ہے نہ بددعا ہے بلکہ اس جھوٹے کو سزا دلانے کی غرض سے ہے جو اپنے جھوٹ کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ ایک جہان کے زندہ ہونے کے لئے ایک کا جیسا کہ نجاشی نے بھی جو عیسائی بادشاہ تھا قسم کھاکر کہا کہ یسوع کا رتبہ اس سے ذرہ زیادہ نہیں جو قرآن نے اس کی نسبت لکھا ہے مگر نجاشی اس کے بعد کھلا کھلا مسلمان ہوگیا۔ منہ نوٹ۔ ان صاحبوں میں سے کوئی منتخب ہونا چاہئے۔ اول ڈاکٹر مارٹن کلارک۔ دوسرے پادری عماد الدین پھر پادری ٹھاکر داس یا حسام الدین بمبئی یا صفدر علی بھنڈارہ یا طامس ہاول یا فتح مسیح بشرط منظوری دیگران