کیا کام کیونکہ وہ جسم تو اسی وقت سے تیرا جسم نہیں رہا جبکہ تو نے اس کو کاٹ کر پھینک دیا*اب جبکہ طلاق کی ایسی
صورت ہے کہ اس میں خاوند خاوند نہیں رہتا اور ؔ نہ عورت اس کی عورت رہتی ہے اور عورت ایسی جدا ہو جاتی ہے کہ جیسے ایک خراب شدہ عضو کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے تو ذرہ سوچنا چاہئے
کہ طلاق کو نیوگ سے کیا مناسبت ہے طلاق تو اس حالت کا نام ہے کہ جب عورت سے بیزار
بعض ہندو نہایت نادانی کی وجہ سے بول اٹھتے ہیں کہ مسلمانوں کی حدیثوں میں لکھا ہے کہ آدم نے
بوجہ ضرورت اپنی بیٹیاں اپنے بیٹوں کو بیاہ دی تھیں سو یہ کام کیا نیوگ سے کچھؔ کم ہے سو ایسے ہندوؤں کو یاد رہے کہ یہ بیان نہ قران مجید میں پایا جاتا ہے نہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی
حدیث میں اور اگر ہے تو دکھلاؤ۔ ہاں بعض مسلمانوں کا یہ قول ضرور لکھا ہے کہ حضرت آدم کے وقت چونکہ اور انسان دنیا میں نہ تھے اس لئے خدا نے یہ کیا کہحوا ان کی بیوی ہمیشہ لڑکی اور
لڑکا توام جنتیں اور حضرت آدم پہلے پیٹ کی لڑکی کو دوسرے پیٹ کے لڑکے کے ساتھ شادی کر دیتے لیکن اس قول کا قائل نہ تو قرآن سے کوئی سند لایا اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی
کوئی حدیث اس نے پیش کی اس لئے یہ قول مردود ہے اور جس طرح منو یا باوانانک کے ایسے مسائل جو وید کے مخالف ہیں آریہ نہیں مانتے اسی طرح ہم بھی ایسی باتوں کو نہیں مانتے اور حیا اور
انصاف کے برخلاف ہے کہ ہمارے سامنے ایسی باتیں پیش کی جائیں کہ جو نہ قرآن میں نہ حدیث میں موجود ہیں اور نہ ان پر مسلمانوں کا عمل ہے اور جس نامعلوم شخص کا یہ قول ہے معلوم ہوتا ہے
کہ اس نے اس بات کے تصور سے کہ حضرت آدم کے وقت میں تو دنیا میں کوئی اور انسان نہیں تھا پھر ان کی اولاد کے کہاں رشتے ہوئے یہ بات ضرورتاً اپنے دل سے بنالی کہ شاید یہی انتظام ہوگا
کہ ذرہ پیٹ کے لحاظ سے تبدیلی کر کے نکاح کرا دیا جاتا ہوگا۔ مگر اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ حضرت آدم کی اولاد چالیس۴۰ لڑکے تھے اور ان سے پوتے پڑوتے وغیرہ ہو کر حضرت آدم کے
جیتے جی چالیس ہزار آدمی دنیا میں ہوگیا تھا اگر اضطراری طور پر کوئی ایسا کام جائز بھی رکھا جاتا تو دور کے رشتوں سے ہوتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ جیسے حضرت حوا حضرت آدم کی پسلی
سے نکالی گئیں ایسا ہی ہریک لڑکے کی جورو اس کی پسلی سے نکالی گئی ہو یا ممکن ہے کہ حضرت آدم کی طرح جورواں بھی الگ پیدا ہوگئی ہوں کیونکہ جس نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا وہ