شخص سے ہم بستر ہو سکتی ہے پھر طلاق مسلمانوں سے کچھ خاص بھی نہیں بلکہ ہریک قوم میں بشرطیکہ دیوث نہ ہوں نکاح کا
معاہدہ صرف عورت کی نیک چلنی تک ہی محدود ہوتا ہے اور اگر عورت بدچلن ہو جائے تو ہریک قوم کے غیرتمند کو خواہ ہندو ہو خواہ عیسائی ہو بدچلن عورت سے علیحدہ ہونے کی ضرورت پڑتی ہے
مثلاً ایک آریہ کی عورت نے ایک چوہڑے سے ناجائز تعلق پیدا کرلیا ہے چنانچہ بارہا اس ناپاک کام میں پکڑی بھی گئی۔ اب آپ ہی فتویٰ دو کہ اس آریہ کو کیا کرنا چاہئے کیا ؔ نکاح کا معاہدہ ٹوٹ گیا یا
اب تک باقی ہے۔ کیا یہ اچھا ہے کہ وہ مسلمانوں کی طرح اس عورت کو طلاق دیدے یا یہ کہ ایک دیوث بن کر اس آشنا پر راضی رہے یا مثلاً ایک عورت علاوہ بدکار ہونے کے خاوند کے قتل کرنے کے
فکر میں ہے تو کیا یہ جائز ہے کہ اس کا خاوند ایک مدت تک اس کی بدکاری کو دیکھتا رہے اور اس پر خوش رہے اور آخر اس فاسقہ کے ہاتھ سے قتل ہو غرض یہ مثال نہایت درست ہے کہ گندی عورت
گندے عضو کی طرح ہے اور اس کا کاٹ کر پھینکنا اسی قانون کے رو سے ضروری پڑا ہوا ہے جس قانون کے رو سے ایسے عضو کاٹے جاتے ہیں اور چونکہ ایسی عورتوں کو اپنے پاس سے دفع کرنا
واقعی طور پر ایک پسندیدہ بات اور انسانی غیرت کے مطابق ہے اس لئے کوئی مسلمان اس کارروائی کو چھپے چھپے ہرگز نہیں کرتا مگر نیوگ چھپ کر کیا جاتا ہے کیونکہ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ ُ برا
کام ہے۔
جب رام دئی یہ سب باتیں کہہ چکی تو پنڈت سخت نادم ہوکر لاجواب ہوگیا اور کہا کہ اب مجھے سمجھ آگیا کہ نیوگ حقیقت میں خباثت کا ہی کام ہے تبھی تو چھپ کر کیا جاتا ہے کیونکہ
انسانی فطرت اور انسانی کانشنس اس کو مردانہ غیرت کے برخلاف سمجھتے ہیں پس نیوگ اور طلاق کو ایک ہی رنگ میں سمجھنا ٹھیک نہیں۔ یہ بات فی الحقیقت سچی ہے کہ نکاح مرد اور عورت میں
ایک عہد ہے اور وہ بدعہدی کے بعد قائم نہیں رہ سکتا اور جو شخص اپنی عورت کو بدکار پاکر پھر بھی اس سے قطع تعلق نہیں کرتا وہ حقیقت میں دیوث اور بے غیرت ہی ہے اور حقیقت میں ایسی
عورت سے قطع تعلق نہ کرنا اس مثال کے نیچے داخل ہے کہ ایک شخص ایسے عضو کو بھی اپنے وجود کا ٹکڑا ہی سمجھے جو سڑ گل گیا اور جو بدبو سے دماغ کو پریشان کرتا ہے اور اپنی عفونت
سے چنگے بھلے وجود کو دکھ