پھرؔ بھی اعتراض کرتے ہیں کیونکہ ان کی فطرت روشنی سے عداوت اور ظلمت سے محبت رکھتی ہے۔ اب اس اشتہار کی تحریر سے یہ غرض ہے کہ ہم نے بڑے لمبے تجربہ سے آزما لیا ہے کہ یہ لوگ بار بار ملزم اور لاجواب ہوکر پھر بھی نیش زنی سے باز نہیں آتے اور اس شخص کو تمام عیبوں سے مبرّا سمجھتے ہیں جس نے خود اقرار کیا کہ ’’میں نیک نہیں‘‘ اور جس نے شراب خواری اور قمار بازی اور کھلے طور پر دوسروں کی عورتوں کو دیکھنا جائز رکھ کر بلکہ آپ ایک بدکار کنجری سے اپنے سر پر حرام کی کمائی کا تیل ڈلوا کر اور اس کو یہ موقعہ دے کر کہ وہ ا س کے بدن سے بدن لگاوے اپنی تمام اُمت کو اجازت دے دی کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی حرام نہیں۔ سو ایسے شخص کو تو انہوں نے خدا بنا لیا مگر خدا کے مقدس نبیوں کو جن کی زندگی محض خدا کے لئے تھی اور جو تقویٰ کی باریک راہوں کو سکھا گئے برا کہنا اور گالیاں دینا شروع کردیا چنانچہ اب تک یہ لوگ باز نہیں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں نہایت ناپاک اور رنجدہ تھیئٹر نکالتے ہیں اور نہایت بری تصویروں میں اس پاک وجود کو دکھلاتے ہیں۔ اب ایسے کذَّابوں سے زبانی مباحثات سے کیونکر فیصلہ ہو۔ ہم جھوٹے کو دندان شکن جواب سے ملزم تو کرسکتے ہیں مگر اس کا منہ کیونکر بند کریں اس کی پلید زبان پر کونسی تھیلی چڑھا ویں؟ اس کے گالیاں دینے والے منہ پر کونسا قفل لگاویں؟ کیا کریں؟ کیا کوئی اس سے بے خبر ہے کہ نالائق عماد الدین نے اس پاک ذات نبی کی نسبت کیا کیا گندے الفاظ استعمال کئے جس سے تمام مسلمانوں کے کلیجے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ نور افشاں پرچہ لودیانہ میں کیسے کیسے ہفتہ وار محض افترا کی بنیاد پر توہین اسلام کے کلمات لکھے جارہے ہیں۔ ریواڑی والے پادری نے کس قدر مسلمانوں کا دل جلایااور ہمارے سید و مولیٰ کو ڈاکو اور رہزن قرار دیا۔ غرض کہاں تک لکھیں ان ظالم پادریوں نے لاکھوں گالیاں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر ہمارے دلوں کو زخمی کردیا۔ لیکن ہم ظالم ہوں گے اگر ساتھ ہی یہ بھی گواہی نہ دیں کہ ان کارروائیوں میں گورنمنٹ پر کوئی الزام نہیں بلاشبہ گورنمنٹ ہریک قوم کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتی ہے۔ مذہبی مناظرات