اور کوئی چیز پوجنےؔ کے لائق نہیں نہ زمین کی چیزوں میں سے نہ آسمان کی چیزوں میں سے نہ چاند نہ سورج نہ وایو نہ جل اگر کوئی ایسی شرتی ہے تو بھلا پنڈت جی پیش تو کرو سو ایک تو وید کی اسی خرابی پر رونا آتا تھا اب دوسری خوبی وید کی یہ بھی معلوم ہوئی کہ وید پاکدامن عورتوں کی عزت کو بھی خراب کرنا چاہتا ہے اگر خواہ نخواہ بناوٹی اولاد کے لئے تعلیم تھی تو یہ کہنا کافی تھا کہ گود میں بچہ لے لو حالانکہ وید نے آپ ہی بتلایا تھا کہ گود لینے سے بھی متبنّٰی ہو سکتا ہے پھر اس سے کنارہ کرنا اور نیوگ کو واجب ٹھہرانا بجز حرام کاری شائع کرانے کے اور کس بناء پر مبنی ہوسکتا ہے۔ یہ باتیں کہہ کر رام دئی نے رو دیا کہ درحقیقت وید ہی نے آریہ ورت کا ستیاناش کر دیا اگر وید آتش پرستی کی تعلیم نہ کرتا تو وہ لاکھوں آدمی اس دیس میں ہرگز نہ پائے جاتے جو اس زمانہ میں بھی اگنی پوجا میں مشغول ہیں۔ جن چیزوں کی وید نے تعظیم بیان کی انہیں چیزوں کی ہماری قوم میں قدیم سے پرستش جاری ہے پھر رام دئی نے پنڈت کو مخاطب کر کے یہ بھی کہا کہ یہ جو تو نے کہا کہ آریوں میں نیوگ ایسا ہے جیسا کہ مسلمانوں میں طلاق اس سے معلوم ہوا کہ تم اس گند کو کسی طرح چھوڑنا نہیں چاہتے اور زور لگا رہے ہو کہ کسی طرح یہ چھپا ہی رہے بھلا پنڈت جی طلاق کو نیوگ سے کیا مناسبت اور نیوگ کو طلاق سے کیا نسبت۔ مسلمان ہمارے پڑوسی ہیں اور اس بات کو ہم خوب جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خودبخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خودبخود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کرا سکتی ہے اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے لیکن مرد جیسا کہ اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح کا باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے