ہو جاتی ہیں اور وہ اپنی عورتوں کو طلاق نہیں دیتے اور ان کی بدکاری سے کراہت نہیں کرتے بلکہ کسی آشنا کو گھر میں دیکھ کر واپس چلے جاتے ہیں ان کی لوگ کچھ تعریف نہیں کرتے بلکہ چاروں طرف سے ان پر لعنتیں پڑتی ہیں اور دیوث کہلاتے ہیں اگر وہ انسانی غیرت سے طلاق دیتے تو کوئی بھی ان کو ُ برا نہ کہتا اس سے ثابت ہے کہ اس دنیا کے پیدا کرنے والے نے انسانوں کی عام فطرت میں یہ غیرت رکھ دی ہے کہ وہ ہرگز راضی نہیں ہوتی کہ ایک عورت منکوحہ نکاح کی حالت میں اپنے خاوند کی زندگی میں کسی دوسرے سے خرابی کرے اور جن لوگوں میںیہ فطرتی غیرت باقی نہیں رہی۔ وہ اس گندے اور سڑے ہوئے عضو کی طرح ہیں جو اپنی صحت کی تمام قوتوں کو کھو چکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انسانی غیرت نے طلاق کو بے کراہت جائز رکھا اور نیوگ کو جائز نہ رکھا۔ پس اسی باعثؔ سے عام ہندو اس نیوگ کے عمل کو اپنی بہو بیٹیوں اور بیویوں سے چھپا چھپا کر کراتے ہیں اور کھلے طور پر کوئی شخص اپنی استری یا بیٹی کو کسی غیر سے ہم بستر نہیں کراتا پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی غیرت کے زور نے وید پر ایمان لانے سے روک دیا اگر یہ حکم انسانی غیرت کے موافق ہوتا تو تمام ہندو کھلے کھلے طور پر کر کے دکھلاتے اب کیسی بے شرمی ہے کہ کھلے طور پر نیوگ پر عمل کر کے نہیں دکھلاتے اور پھر طلاق سے اس کو مشابہت دیتے ہیں بھلا اگر اپنی بات میں سچے ہیں تو جیسے مسلمان ضرورتوں کے وقت کھلے کھلے طور پر طلاق دیدیتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے ایسا ہی ہندو بھی اس عمل کو مرد میدان بن کر دکھلاویں مثلاً اسی شہر میں دس۱۰ بیس۲۰ ہندو اپنی عورتوں کو دوسروں سے ہم بستر کراویں اور اشتہار دے دیں کہ آج رات فلاں فلاں لالہ صاحب اور فلاں فلاں پنڈت صاحب نے اپنی جوان عورت کو فلاں فلاں شخص سے اولاد کی غرض سے یا شہوت فرو کرانے کیلئے ہم بستر کرا دیا ہے اورجب تک اپنی عورتوں کو غیروں سے ہم بستر نہ کراویں تب تک ان کو طلاق وغیرہ کا نام لے کر کسی الزامی جواب دینے کا حق نہیں پہنچتا۔ کیونکہ مسلمانوں کی کارروائی منافقانہ نہیں وہ جس بات کو اللہ و رسول کا حکم قرار دیتے ہیں اس کے بجا لانے میں کسی سے نہیں ڈرتے اور نہ کسی کی ملامت کا اندیشہ کرتے ہیں پس اگر ہندو بھی درحقیقت نیوگ کے مسئلہ کو سچا ہی سمجھتے ہیں اور برکتوں کے حاصل کرنے کا ذریعہ قرار