دے رہا ہے بیشک ایسے عضو کو جلد کاٹ دینا چاہئے ایسا نہ ہو کہ تمام بدن ہی تباہ ہو جائے۔ مگر نیوگ کی حالت میں تو وہ عورت کسی طرح سڑے ہوئے عضو کی مانند نہیں ہوسکتی۔ اور ایک تندرست عضو کی طرح ہوتی ہے جو بدن کی جز ہے اور ایک بھلے مانس کے نکاح میں ہوتی ہے۔ اور پھر عین منکوحہ ہونے کی حالت میں دوسرے سے ہم بستر کرائی جاتی ہے یہ درحقیقت بے غیرتی اور بے شرمی کی با ت ہے کیا کہیں ہمارے ویدوں کے رشی بھی بڑے ہی سیدھے تھے جنہوں نے ایسی ایسی باتیں لکھ دیں۔ رام دئی نے کہا کہ ایسی باتیں کسی سیدھے کا کام نہیں بلکہ بے غیرت کا کام ہے جس نے تمام دنیا کی کانشنس کی مخالفت کی دنیاؔ کے مذاہب میں ہزاروں اختلاف ہیں ضرورتوں کے وقت طلاقیں بھی ہوتی چلی آئی ہیں مگر ایسا تو کسی مذہب ملّت میں سنا نہیں گیا اور نہ کوئی ایسی کتاب دیکھی کہ اس درجہ بے غیرتی کی تعلیم دیوے کہ ایک عورت باوجود قید نکاح اور زندہ ہونے خاوند کے اس لالچ سے دوسروں سے ہم بستر ہوتی پھرے کہ تا ان سے اولاد حاصل کرے پنڈت نے کہا کہ ہاں رام دئی یہ سب سچ ہے اب مجھے شرمندہ تو مت کر میں خوب سمجھ گیا کہ نیوگ کی تعلیم سراسر گندی تعلیم ہے اور دھرم کی بات تو یہی ہے کہ نیوگ کو طلاق سے کچھ نسبت نہیں جو عورت طلاقن ہو چکی وہ خاوند والی تو نہیں کہلاتی اور تمام لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اب یہ فلاں شخص کی عورت نہیں مگر نیوگ میں تو نکاح قائم ہوتا ہے اور عورت اپنے مرد کی وارث ہوتی ہے اور اس کے گھر میں آباد ہوتی ہے مگر اس لئے بدفعلی کراتی ہے کہ تا اس کے لئے اولاد حاصل کر لے لیکن ہم لوگ لاچار ہوکر مسلمانوں کو یہی جواب دیدیا کرتے ہیں کیا کریں دل نہیں چاہتا کہ وید پر داغ لگاویں۔ رام دئی نے کہا کہ پنڈت جی یہ تو ہٹ دھرمی ہے کہ وید کی محبت سے حق کو چھپاویں طلاق تو ایک سخت رسوائی سے نجات پانے کے لئے آخری علاج ہے مگر نیوگ اپنے ہاتھ سے ایک رسوائی پیدا کرنا ہے اور تم خود سوچو کہ جب ایک عورت نکاح کے عہد پر جو پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری ہے قائم نہ رہی تو انجام کار بجز طلاق کے اور کیا علاج ہے اسی لئے گورنمنٹ انگریزی کو بھی اپنی قوم کے لئے ضرورتوں کے وقت طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا۔ جن لوگوں کی عورتیں بدکار