ہوکر بکلی قطع تعلق اس سے کیا جائے مگر نیوگ میں تو خاوند بدستور خاوند ہی رہتا ہے اور نکاح بھی بدستور نکاح ہی کہلاتا ہے
اور جو شخص اس غیر عورت سے ہم بستر ہوتا ہے اس کا نکاحؔ اس عورت سے نہیں ہوتا اور اگر یہ کہو کہ مسلمان بے وجہ بھی عورتوں کو طلاق دے دیتے ہیں تو تمہیں معلوم ہے کہ ایشر نے
مسلمانوں کو لغو کام کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے 3 ۱اور قرآن میں بے وجہ طلاق دینے والوں کو بہت ہی ڈرایا ہے۔ ماسوا اس کے تم اس بات کو بھی تو ذرا سوچو کہ مسلمان اپنی
حیثیت کے موافق بہت سا مال خرچ کر کے ایک عورت سے شادی کرتے ہیں اور ایک رقم کثیر عورت کے مہر کی ان کے ذمہ ہوتی ہے اور بعضوں کے مہر کئی ہزار اور بعض کے ایک لاکھ یا کئی لاکھ
ہوتے ہیں اور یہ مہر عورت کا حق ہوتا ہے اور طلاق کے وقت بہرحال اس کا اختیار ہوتا ہے کہ وصول کرے اور نیز قرآن میں یہ حکم ہے کہ اگر عورت کو طلاق دی جائے تو جس قدر مال عورت کو
طلاق سے پہلے دیا گیا ہے وہ عورت کا ہی رہے گا۔ اور اگر عورت صاحب اولاد ہو تو بچوں کے تعہد کی مشکلات اس کے علاوہ ہیں اسی واسطے کوئی مسلمان جب تک اس کی جان پر ہی عورت کی
وجہ سے کوئی وبال نہ پڑے تب تک طلاق کا نام نہیں لیتا بھلا کون ایسا پاگل ہے کہ بے وجہ اس قدر تباہی کا بوجھ اپنے سر پر ڈال لے بہرحال جب مرد اور عورت کے تعلقات نکاح باہم باقی نہ رہے تو
پھر نیوگ کو اس سے کیا نسبت جس میں عین نکاح کی حالت میں ایک شخص کی عورت دوسرے
آدم کے لڑکوں کی جورواں بھی اسی طرح پیدا کر سکتا تھا۔ غرض چونکہ خدا تعالیٰ کی پاک کتاب میں
اس کا کچھ بھی ذکر نہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث میں کچھ ذکر ہے اس لئے ایسے سوالوں کے وقت ہمارا یہیؔ جواب ہے کہ اس وقت جو کچھ خدا تعالیٰ کی تقدس اور حکمت
کے مناسب ہوگا وہی کام خدا تعالیٰ نے کیا ہوگا بے حیائی کے کاموں سے تو وہ آپ منع فرماتا ہے اور چونکہ تعطل صفات خداتعالیٰ پر جائز نہیں اور ہمارے آدم سے پہلے بھی کئی امتیں دنیا میں ہو چکی
ہیں اس لئے یہ بھی کچھ تعجب کی بات نہیں کہ آریہ لوگ جو کروڑ ہا برسوں کا دعویٰ کرتے ہیں ان پر وبال آنے کے بعد کچھ لڑکیاں ان کی باقی رہ گئی ہوں انہیں لڑکیوں سے حضرت آدم کے لڑکوں
نے نکاح کرلیا ہو۔ پس اس صورت میں تو مسلمان آریوں کے داماد ثابت ہوئے اور یہ بات قرین قیاس بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ لکھا ہے کہ حضرت آدم مع اپنے لڑکوں کے ہندوستان میں تشریف لائے اور
غالباً یہ تشریف لانا شادی کی تقریب پر ہوگا۔ واللہ اعلم۔ منہ