لالچ سے نیوگ کر سکتی ہے یعنی کسی دوسرے سے مجامعت کرا سکتی ہے جب تک کہ اس غیر آدمی کا حمل ٹھہر جائے میں
نے اس رسالہ کو بھی خوب توجہ سے پڑھا مگر سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس رسالہ پر بھی اعتبار نہ آیا اور میں نے یہ خیال کیا کہ غالباً یہ رسالہ پنڈت اگنی ہوتری صاحب کے ہاتھ سے نکلا ہے اور
میں سنتا ہوں کہ آریہ صاحبوں اور ان کے باہم سخت عداوت ہے اس لئے ممکن ہے کہ پنڈت صاحب نے عداوت کے جوش سے اپنی طرف سے کوئی حاشیہ چڑھا دیا ہو لیکن جب میں ستیارتھ پرکاش کے
حوالے اس میں دیکھتا تھا تو میرا پھر خیال اس طرف جھک جاتا تھاؔ کہ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی ثقہ آدمی چھو۱ٹے حوالوں سے ناحق اپنے تئیں الزام کے نیچے لاوے مگر بہرحال اس وقت بھی
میں قابل تسلی کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ پھر مجھے کلکتہ کے بعض نامی پنڈت صاحبوں کی رائے کی کیفیت بذریعہ ایک اخبار کے معلوم ہوئی جو بڑے جوش سے نیوگ کے مسئلہ کے حامی تھے مگر پھر
بھی میں نے دل میں کہا کہ کلکتہ ہم سے بہت دور ہے ممکن ہے کہ کسی اخبار والے نے اس میں جھوٹ ملا دیا ہو۔ بالآخر یہ دل میں آیا کہ پنڈت دیانند کی کتابوں کو آپ ہی سنیں اور ساتھ ہی یہ بھی قرین
انصاف سمجھا گیا کہ اگر دیانند صاحب نے نیوگ کے بارے میں صرف اپنی ہی رائے لکھی ہو اور وید کا کوئی حوالہ نہ دیا ہو تو آریہ مذہب پر حقیقی طور سے کوئی الزام نہیں آ سکتا وید پر تو تبھی الزام
آئے گا کہ جب وہ ناپاک تعلیم اس کتاب میں پائی بھی جاوے جو الہامی مانی جاتی ہے غرض میں نے یہ طریق فیصلہ قرار دے کر دیانند صاحب کی کتابیں بہم پہنچائیں اور چونکہ سنا گیا تھا کہ پہلے
چھاپہ کی ستیارتھ پرکاش کو آریہ صاحب قبول نہیں کرتے اس لئے اس تمام فیصلہ کا دوسرے چھاپہ کی ستیارتھ پرکاش پر مدار رکھا گیا چنانچہ وہ کتاب مجلس میں منگوائی گئی اور ایک صاحب ہماری
جماعت میں سے صفحہ نمبر ۱۱۳ سے عبارت کو پڑھنے لگے اور پڑھتے پڑھتے اس مقام تک پہنچے۔
(اُتر) ’’نہیں نہیں۔ کیونکہ جو استری پرش برہم چرج میں استھت رہنا چاہیں تو کوئی بھی
اُپدّرو نہ ہوگا اور جو کل کی پرمپرا رکھنے کے لئے کسی اپنے سوجاتی کا لڑکا گود میں لے لیں گے اس سے کل چلے گا اوروبھی چار نہ ہوگا اور جو برہم چرج نہ کر سکیں تو نیوگ کر کے سنتانوتپتی
کرلیں‘‘۔* یعنی بے اولادی کی حالت میں دوسرا نکاح کرنا ہرگز درست نہیں اور نہ حاجت ہے کیونکہ دو تدبیریں ایسی ہیں جن سے نکاح کی کچھ بھی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ایک تو