شرائط ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختا رہے سو یہ قانون فطرتی قانون سے ایسی مناسبت اور مطابقت رکھتا ہے
گویا کہ اس کی عکسی تصویر ہے کیونکہ فطرتی قانون نے اسؔ بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ ہریک معاہدہ شرائط قراردادہ کے فوت ہونے سے قابل فسخ ہو جاتا ہے اور اگر فریق ثانی فسخ سے مانع ہو تو وہ
اس فریق پر ظلم کر رہا ہے جو فقدان شرائط کی وجہ سے فسخ عہد کا حق رکھتا ہے جب ہم سوچیں کہ نکاح کیا چیز ہے تو بجز اس کے اور کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی کہ ایک پاک معاہدہ کی شرائط
کے نیچے دو انسانوں کا زندگی بسر کرنا ہے۔ اور جو شخص شرائط شکنی کا مرتکب ہو وہ عدالت کی رو سے معاہدہ کے حقوق سے محروم رہنے کے لائق ہو جاتا ہے اور اسی محرومی کا نام دوسرے
لفظوں میں طلاق ہے لہٰذا طلاق ایک ایسی پوری پوری جدائی ہے جس سے مطلقہ کی حرکات سے شخص طلاق دہندہ پر کوئی بد اثر نہیں پہنچتا یا دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک
عورت کسی کی منکوحہ ہو کر نکاح کے معاہدہ کو کسی اپنی بدچلنی سے توڑ دے تو وہ اس عضو کی طرح ہے جو گندہ ہوگیا اور سڑ گیا یا اس دانت کی طرح ہے جس کو کیڑے نے کھا لیا اور وہ اپنے
شدید درد سے ہر وقت تمام بدن کو ستاتا اور دکھ دیتا ہے تو اب حقیقت میں وہ دانت دانت نہیں ہے اور نہ وہ متعفن عضو حقیقت میں عضو ہے اور سلامتی اسی میں ہے کہ اس کو اکھیڑ دیا جائے اور کاٹ
دیا جائے اور پھینک دیا جائے یہ سب کارروائی قانون قدرت کے موافق ہے۔ عورت کا مرد سے ایسا تعلق نہیں جیسے اپنے ہاتھ اور اپنے پیر کا لیکن تاہم اگر کسی کا ہاتھ یا پیر کسی ایسی آفت میں مبتلا ہو
جائے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی رائے اسی پر اتفاق کرے کہ زندگی اس کی کاٹ دینے میں ہے تو بھلا تم میں سے کون ہے کہ ایک جان کے بچانے کے لئے کاٹ دینے پر راضی نہ ہو پس ایسا ہی اگر
تیری منکوحہ اپنی بدچلنی اور کسی مہان پاپ سے تیرے پر وبال لاوے تو وہ ایسا عضو ہے کہ بگڑ گیا اور سڑ گیا اور اب وہ تیرا عضو نہیں ہے اس کو جلد کاٹ دے اور گھر سے باہر پھینک دے ایسا نہ
ہو کہ اس کی زہر تیرے سارے بدن میں پہنچ جائے۔ اور تجھے ہلاک کرے پھر اگر اس کاٹے ہوئے اور زہریلے جسم کو کوئی پرند یا درند کھالے تو تجھے اس سے