اور نورالانوار کے سہارے سے غافل ہیں جس کے وجود کے سوا کوئی ہستی حقیقی نہیں۔ افسوس کہ یہؔ لوگ نہیں سوچتے کہ
وہی تو ہے جو ہریک فیض کا مبدا اور ہریک زندگی کا سرچشمہ اور ہریک قوت کا ستون اور ہریک وجود کا سہارا ہے اور انہیں معنوں کے رو سے تو اس کو خدا ماننا پڑا ہے سو اسی کا یہ فضل و احسان
ہے کہ دنیا کو تاریکی اور غفلت اور جہالت میں پاکر ایک نور بھیجا اور وہ نور جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے دنیا میں آیا اور خدا کا مقدس کلام قرآن شریف اس پر نازل ہوا اور ہم کو علمی
اور عملی پاکیزگی کیلئے بھی راہیں دکھلائیں۔ پس اس عالیشان نبی اور اس کے آل و اصحاب پر ہماری طرف سے بیشمار درود اور سلام ہو جس نے کروڑ ہا لوگوں کو تاریکی سے نکالا اور پلید عقیدوں
اور قابل شرم عملوں اور نفرتی رسموں سے رہائی بخشی۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ اٰمِیْن
امابعد اس مختصر رسالہ کے لکھنے کا یہ موجب ہے کہ ایک ُ مدّت ہوئی کہ مجھے بعض لوگوں
کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ پنڈت دیانند صاحب اپنی کتابوں میں اس بات پر بہت ہی زور دے رہے ہیں کہ آریہ لوگ ضرور رسم نیوگ کو اپنی بیویوں اور بہو بیٹیوں میں وید کی شرائط کے موافق جاری
کریں۔ میں نے ان خبروں کو سن کر باور نہ کیا اور خیال کیا کہ یہ دشمنوں کا افترا ہوگا بھلا یہ کیونکر ممکن ہے کہ شریف لوگ اپنی پاک دامن عورتوں کو صرف اولاد کی خواہش سے غیر مردوں سے ہم
بستر کراویں مگر میں چپکے چپکے بعض آریوں سے پوچھتا رہا کہ یہ کیا بات ہے وہ صاف انکار کرتے رہے کہ یہ بیانات غلط ہیں ایسا ہرگز نہیں مگر میں دیکھتا تھا کہ بعض کے چہروں پر انکار کے
وقت کچھ شرم اور انفعال کے آثار ظاہر ہوتے تھے گویا ان کو ایک بھاری ندامت کا سامنا درپیش ہے لیکن میرے لئے کافی نہ تھا کہ صرف اسی قدر قرائن سے کوئی رائے ظاہرکر سکوں اتنے میں
۱۸۸۶ء یا ۱۸۸۷ء میں ایک برہمو صاحب کا ایک رسالہ جو نیوگ کے بارہ میں ستیارتھ پرکاش کے حوالہ سے انہوں نے لکھا تھا مجھ کو ملا۔ اس رسالہ میں صاف طور پر تحریر تھا کہ ایک عورت زندہ
خاوند والی اولاد کے
نوٹ:ہمارا منشاء اس رسالہ کے لکھنے سے صرف دو باتیں ہیں(ا) یہ کہ ایسی کتاب یعنی وید جس میں ایسی گندی باتیں لکھی ہیں کیونکر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو سکتی
ہے۔(۲) یہ کہ تا اس ملک کے لوگ متنبہ ہو کر ایسی فحش اور فسق و فجور کی رسموں سے پرہیز کریں اور نیز گورنمنٹ بھی جس نے ملک کی جسمانی خیر خواہی کے خیال سے پہلے اس سے ستی
اور جل پروا کی رسم کو بند کر دیا ہے وہ اب تہذیب پھیلانے کی نیت سے اس ناپاک حکم کو بھی بند کر دے۔ منہ