انتہائی نقطہ کی طرح ہے جس کے نیچے سے دو عظیم الشان عالم کی دو شاخیں نکلتی ہیں اور ہریک شاخ ہزارہا عالم پر مشتمل
ہے جن کا علم بجز اس ذات کے کسی کو نہیں جو اس نقطہ انتہائی پر مستوی ہے جس کا نام عرش ہے اس لئے ظاہری طور پر بھی وہ اعلیٰ سے اعلیٰ بلندی جو اوپر کی سمت میں اس انتہائی نقطہ میں
متصور ہو جو دونوں عالم کے اوپر ہے۔ وہی عرش کے نام سے عند الشرع موسوم ہے اور یہ بلندی باعتبار جامعیت ذات باری کی ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ مبدء ہے ہریک فیض کا اور
مرجع ہے ہریک چیز کا اور مسجود ہے ہریک مخلوق کا اور سب سے اونچا ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور کمالات میں ورنہ قرآن فرماتا ہے کہ وہ ہریک جگہ ہے جیسا کہ فرمایا 3۱ جدھر منہ
پھیرو ادھر ہی خدا کا منہ ہے اور فرماتا ہے 3۲ یعنی جہاں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور فرماتا ہے 3۳ یعنی ہم انسان سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہیں۔ یہ تینوں تعلیموں کا نمونہ ہے۔
والسلام علٰی من اتبع الھدٰی
تمّت
بقلم خاکسار
یکم دسمبر ۱۸۹۵ ء بروز یک شنبہ ہیچمدان
از مریدان حضرت مسیح موعود
غلام محمد امرتسر عفی اللہ عنہ