کا معیار نہیں ہوتا ماسوا اس کے ایک خوبصورت کو اگر اتفاقاً اس پر نظر پڑ جائے خوبصورت سمجھنا نفس الامر میں کوئی بات عیب کی نہیں۔ ہاں بدخطرات کامل تقدس کے برخلاف ہیں لیکن جو شخص بدخطرات سے پہلے حفظ ماتقدم کے طور پر تقویٰ کی دقیق راہوں پر قدم مارے تاخطرات سے دور رہے تو کیا ایسا عمل کمال کے منافی ہوگا۔ یہ تعلیم قرآن شریف کی نہایت اعلیٰ ہے کہ ۱؂۔ یعنی جس قدر کوئی تقویٰ کی دقیق راہیں اختیار کرے اسی قدر خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کا زیادہ مرتبہ ہوتا ہے پس بلاشبہ یہ نہایت اعلیٰ مرتبہ تقویٰ کا ہے کہ قبل ازخطرات خطرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر بطور حفظ ماتقدم کی جائے۔ اور اگر یہ دعویٰ ہو کہ کاملین بہرحال خطرات سے محفوظ رہتے ہیں ان کو تدبیر کی حاجت نہیں تو یہ دعویٰ سراسر حماقت اور قصور معرفت کی وجہ سے ہوگا کیونکہ انبیاء علیہم السلام کسی معصیت اور نافرمانی پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی دلی عزیمت نہیں کرسکتے اور ایسا کرنا ان کے لئے کبائر ذنوب کی طرح ہے لیکن انسانی قویٰ اپنے خواص اُن میں بھی دکھلا سکتے ہیں گو وہ بدخطرات پر قائم ہونے سے بکلّی محفوظ رکھے گئے ہیں مثلاً اگر ایک نبی بشدت بھوکا ہو اور راہ میں وہ بعض درخت پھلوں سے لدے ہوئے پائے تو یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بغیر اجازت مالک پھلوں کی طرف ہاتھ لمبا نہیں کرے گا اور نہ دل میں ان پھلوں کے توڑنے کے لئے عزیمت کرے گا لیکن یہ خیال اس کو آسکتا ہے۔ کہ اگر یہ پھل میری ملک میں سے ہوتے تو میں ان کو کھا سکتا اور یہ خیال کمال کے منافی نہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آپ کے خدا صاحب تھوڑی سی بھوک کے عذاب پر صبر نہ کر کے کیونکر انجیر کے