کرسکتا ہے۔ احسان کرسکتا ہے مگر ان سے محبت نہیں کرسکتا یہ ایک باریک فرق ہے اس کو خوب یاد رکھو۔ پھر آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ مسلمان لوگ خدا کے ساتھ بھی بلا غرض محبت نہیں کرتے ان کو یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ خدا اپنی خوبیوں کی وجہ سے محبت کے لائق ہے۔ اما الجواب۔ پس واضح ہو کہ یہ اعتراض درحقیقت انجیل پر وارد ہوتا ہے نہ قرآن پر کیونکہ انجیل میں یہ تعلیم ہرگز موجود نہیں کہ خدا سے محبت ذاتی رکھنی چاہئے اور محبت ذاتی سے اس کی عبادت کرنی چاہئے مگر قرآن تو اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے قرآن نے صاف فرما دیا ہے۱؂ * ۔۲؂ یعنی خدا کو ایسا یاد کرو۔ جیسا کہ اپنے باپوں کو بلکہ اس سے بہت زیادہ۔ اور مومنوں کی یہی شان ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر خدا سے محبت رکھتے ہیں یعنی ایسی محبت نہ وہ اپنے باپ سے کریں اور نہ اپنی ماں سے اورؔ نہ اپنے دوسرے پیاروں سے اور نہ اپنی جان سے اور پھر فرمایا: ۳؂ یعنی خدا نے تمہارا محبوب ایمان کو بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا اور پھر فرمایا۴؂ یہ آیت حق اللہ اور حق العباد پر مشتمل ہے اور اس میں کمال بلاغت یہ ہے کہ دونوں پہلو پر اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے۔ حق العباد کا پہلو تو ہم ذکر * نوٹ:انجیل کی رو سے ہر یک فاسق فاجر خدا کا بیٹا ہے بلکہ آپ ہی خدا ہے سو انجیل اس وجہ سے کسی کو خدا کا بیٹا قرار نہیں دیتی کہ وہ خدا سے کامل محبت رکھتا ہے بلکہ بائبل کی رو سے زانی لوگ بھی خدا کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ منہ