کےؔ آدمیوں کا گروہ ہے یعنی وہ گروہ جو نفس امّارہ پر بکلّی فتحیاب ہو کر نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں جن کے نفوس کی سرکشی اور امارگی بکلّی دور ہوگئی ہے اور خدا تعالیٰ کے احکام سے اور اس کی شریعت کی تمام راہوں سے اور اس کی تمام قضا و قدر سے اور اس کی تمام مرضی اور مشیت کی باتوں سے وہ طبعاً پیار کرتے ہیں نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے اور کوئی دقیقہ اطاعت اور فرمانبرداری کا اٹھا نہیں رکھتے اور اللہ جلّ شانہٗ کی فرمانبرداری ان کی طبیعت کی جزو اور ان کی جان کی راحت ہوجاتی ہے کے کسی قدر دلوں کو ُ نور اور حقانیت کی طرف کھینچتا ہے اور یہ ایک خاصیت ہے جو ہمیشہ دنیا میں اِنّی طور پر اس کا ثبوت ملتا رہا ہے۔ دنیا میں ہزارہا چیزوں میں ایسے خواص پائے جاتے ہیں جو انسان کی عقل سے برتر ہوتے ہیں اور انسان کوئی عقلی دلیل ان پر قائم نہیں کرسکتا اور ان کے وجود سے بھی انکار نہیں کر سکتا۔ پھر اس خاصیت ثابت شدہ کا صرف اس بنیاد پر انکار کرنا کہ عقل اس کے سمجھنے سے قاصر ہے اگر نادانی نہیں تو اور کیا ہے۔ کیا انسانی عقل نے تمام ان خواص دقیقہ پرجو اجسام اور اجرام میں پائے جاتے ہیں دلائل عقلی کی رو سے احاطہ کر لیا ہے؟ تا اس اعتراض کا حق پیدا ہو کہ تساقط شہب کی نسبت جو انتشار نورانیت کا بھید بیان کیا جاتا ہے یہ کیوں عقل کی دریافت سے باہر رہ گیا ہے۔ اور جیسا کہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں یہ بات بھی نہیں کہ اس بھید کے تسلیم کرانے کیلئے عقل پر سراسر جبر ہے بلکہ جس حد تک عقل انسانی اپنے وجود میں طاقت فہم رکھتی ہے وہ اپنی اس حد کے مناسب حال اس بھید کو تسلیم کرتی ہے انکار نہیں کرتی کیونکہ عقل سلیم کو وجود ملائکہ اور ان کی خدمات مفوضہ کے تسلیم کرنے کے بعد ماننا پڑتا ہے کہ یہ تساقط شہب بھی ملائکہ کے ذریعہ سے ظہور میںآتا ہے اور ملائکہ کسی غرض اور مقصد کیلئے اس