سپرد ہے اور چاروں طرف سے ثبوت مل گیا کہ ان لوگوں کے حالات خراب ہیں۔ تب سخت ناچار ہو کر نرمی کے ساتھ ان کو رخصت کر دیا گیا۔ لیکن باوجود اس قدر نرمی کے غلام محی الدین نے قادیان سے نکلتے ہی طرح طرح کے افتراء اور میرے پر بہتان لگانے شروع کر دئیے۔ بٹالہ میں محمد حسین کے پاس گیا اور امرتسر میں غزنویوں کے گروہ میں گیا اور لاہور میں بد گوئی میں صدہا لوگوں میں وعظ کیا۔ چنانچہ ایک اشتہار زٹلی کا آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں ۔ جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ شخص کس قسم کا آدمی ہے اور چونکہ سرکاری مخبر بھی ہماری جماعت کے حال لکھتے ہیں۔ اس لئے مناسب نہ تھا کہ ایسا آدمی قادیان میں رکھا جاتا اور دوسرا آدمی اس کا دوست تھا۔ والسلام خاکسار مرزاغلام احمد عفی اللہ عنہ نوٹ:۔ ا س خط پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔ مگر نفس واقعات مندرجہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مئی ۱۸۹۸ء کا مکتوب ہے۔ اس میں غلام محی الدین نام جس شخص کا ذکر ہے وہ راہوں ضلع جالندھر کاباشندہ تھا اورخاکی شاہ اس کا عرف تھا۔ وہ عیسائی بھی رہ چکا تھا۔ قادیان میں آکر اور اپنی اس اباحتی زندگی کو جو عیسائیت میں رہ چکا تھا۔یہاں بھی جاری رکھنا چاہا۔ مگر حضرت اقدس تک جب اس کی شکایت پہنچی تو آپ نے اسے نکال دیا۔ اس کے ساتھ جس شخص غلام محمد کاذکر ہے۔ خو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مکتوب میں اس کے متعلق اس قدر فرمایا ہے کہ وہ اس کادوست تھا۔ دراصل ہم وطنی اور ہم صحبتی نے