مضامین تو طبع ہوچکے ہیں۔ مولوی محمد حسین کے اشتہار کی نسبت جو ایک مضمون چھپنے کیلئے دیا گیا ہے وہ شاید چند روز تک چھپ کر رسالہ ازالہ اوہام کے ساتھ شائع ہو۔ لاہور کے بعض معزز ارکان نے چوداں خط علماء کی طرف لکھتے ہیں کہ تا وہ آ کر حضرت مسیح کی وفات و حیات کی نسبت مباحثہ کریں۔ دیکھیں کیا جواب آتے ہیں۔ اس عاجز کی مرضی ہے کہ رسالہ ازالہ اوہام کے نکلنے کے بعد کل متفرق فوائد اور نکات اس کے ایک جگہ جمع کریں اور پھر ان کے ساتھ ان سوالات کا جواب شامل کر کے جو مخالفین نے اپنی تالیف میں لکھے ہوں کہ رسالہ احسن ترتیب کے شائع کر دیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین کی طرف سے شائد واللّٰہ اعلم صد ہا رسالے شائع ہونگے اور چار تو شائع ہو چکے ہیں۔ جن کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ کوئی ایسی بات اُن میں نہیں جس کا جواب رسالہ ازالہ اوہام میں نہ دیا گیا ہو۔ والسلام خاکسار غلام احمد از لودہیانہ محلہ اقبال گنج ۱۰؍ اگست ۱۸۹۱ء مکتوب نمبر۷۷ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ اس جگہ کے علماء نے حد سے زیادہ شور و غوغا کیا ہے اور تمام دہلی میں ایک طوفان کی صورت پیدا کر دی ہے۔ لہٰذا مولوی نذیر حسین صاحب سے درخواست کی گئی۔ ایک جلسہ عام کر کے ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۱ء روز اتوار کو اس عاجز سے بحث کر لیں۔ ابھی تک ان کی طرف سے جواب نہیں آیا لیکن بہرحال بحث ہوگی اور اگر بالکل