وارسلنا ہ والی امائۃ کے معنے پوچھے ہیں۔سو واضح رہے کہ رد کا لفظ جیساکلام عرب میں شک کے لئے آتا ہے۔ ایسا ہی داو کے معنے میں بھی آتاہے اوریہ محاوہ شائع متعارف ہے۔سو آیت کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ ایک لاکھ اور کچھ زیادہ تھے۔ رہا یہ اعتراض کہ اس سے زیادہ کی تصریح کیوںنہیں کی۔ اس کاجواب یہ ہے کہ ہر ایک بات کی تصریح اللہ جلشانہ پر واجب نہیں چاہے کسی چیز کو مجمل بیان کرے اور چاہے مفصل۔ پائوں کے مسح کی بابت کی تحقیق ہے کہ آیت کی عبارت پر نظر ڈالنے سے نحوی قاعدہ کی رو سے دونوں طرح کے معنی نکلتے ہیں۔ یعنی غسل کرنا اور مسح کرنا اور پھر ہم نے جب متواتر آثار نبویہ کی رہ سے دیکھا تو ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پائوں دھوتے تھے۔ اس لئے وہ پہلے معنے غسل کرنا۔ متعبر سمجھے گئے۔ مطبع اور مغرب الشمس کاذکر ایک استعارہ اور مجاز کے طور پر ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر۔ ایسے استعارات جابجا کلام الٰہی میں بھرے ہوئے ہیں اور اشارہ بھی ہمیشہ مجاز اور استعارہ کا استعمال کرتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے چاولوں کی ایک رکابی کھائی۔ تو کیا اس نے رکابی کھا کر توڑ کر کھا لیا۔ پس ایسا اعتراض کوئی دانا نہیں کرسکتا اور اگر کوئی مخالف کرے تو پہلے اس کو اقرار کر لینا چاہئے کہ میری کتاب میں جن کوالٰہامی مانتا ہوں۔ کسی استعارہ یا مجاز کو استعمال نہیں کیا گیا اور مادامت السموات وا لارض کی شرط میں کوئی قباحت نہیں۔ کیونکہ میں جو بہشتوں کے لئے نئی زمینیں اور آسمان بنائے جائیں گے۔ وہ بھی دائمی ہوں گے۔ یہ کہاں سے معلوم ہو اکہ ایک وقت مقررہ کے بعد وہ نہیں رہیں گے۔ ماسوا اس کے آسمان اور زمین فوق و تحت کے معنوں میں بھی آتا ہے۔سو اس طور سے آیت کے یہ معنے ہوئے کہ جب تک جہات فوق و تحت موجود ہیں۔ تب تک وہ بہشت میں رہیں گے اور ظاہر ہے کہ