زندگی میں ہی کر کے اٹھا ہے۔ صحابہ میں بھی ایسا خیال پید اہو گیا تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے وقت نہیں آیا۔ کیونکہ دعوی تو تھا کہ کل دنیا کی طرف رسول ہوئے اور ابھی عرب بھی بہت سا حصہ یونہی پڑا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ ان سب امور کی تکمیل آہستہ آہستہ کر تا رہتا ہے۔ تاکہ جانشینوں کو بھی خدمت دین کا ثواب ملتا رہے۔ اسی ذکرمیں فرمایا کہ ہماری جماعت میں اچھے اچھے لوگ مرتے جاتے ہیں چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب جوا یک عجیب مخلص انسان تھے اور ایسا ہی اب مولوی برہان الدین صاحب جہلم میں فوت ہو گئے اور بھی بہت سے مولوی صاحبان اس جماعت میں سے فوت ہو گئے مگر افسوس یہ ہے کہ جو مرتے ہیں ان کاجانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا۔ پھر فرمایا مجھے مدرسہ کی طرف دیکھ کر بھی رنج پہنچتا ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ بات اس سے حاصل نہیں ہوئی۔ اگر یہاں سے بھی طالب علم نکل کر دنیا کے طالب ہی بنتے تھے تو ہمیں اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہم تو چاہتے تھے کہ دین کے لئے خادم پیدا ہوں چنانچہ پھر بہت سے احباب کو بلا کر ان کے سامنے یہ امر پیش کیا کہ مدرسہ میں ایسی اصلاح ہونی چاہئے کہ یہاں سے واعظ اور مولوی پیدا ہوں جو آیندہ ان لوگوں کے قائم مقام ہوتے رہیں جوگزرتے چلے جاتے ہیں۔ کیسا افسوس ہے کہ آریہ سماج میں وہ لوگ پیدا ہوںجو ایک باطل کے لئے