حضرت کیلئے ہے۔ انہوں نے جو کارڈ ایک علمی امر کے دریافت کے متعلق لکھا ہے اسے واپس منگوا لیا کہ مبادا وہ ادب کے خلاف نہ ہو اور معترضانہ رنگ اس میں نہ پایا جاوے۔ اور ایسی یادگار ایک قبیح یادگار ہوگی۔ سوم یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت اپنی تمام تر توجہ الی اللہ رکھتے تھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر دُکھ اور تکلیف کو پوری لذت اور ذوق سے برداشت کرنے کی اہلیت حاصل کر چکے تھے اور اسی لئے ہر قسم کے حزن اور کسل کے مقام سے نکل کر آپ جنت میں تھے۔ (عرفانی) مکتوب نمبر۱۳ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلی عَلٰی رَسُولِہٖ الکَرِیْم مخدومی مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا اور میں نے کئی بار توجہ سے اس کو مطالعہ کیا اور ہر ایک دفعہ مطالعہ کے بعد آپ کے لئے دعا بھی کی کہ اللہ جلشانہٗ ایسی قدرت ربوبیت سے جس سے اس نے خلق عالم کو حیران کر رکھا ہے آپ کو حزن اور خوف اور اندوہ سے مخلصی عطا فرماوے اور اپنی رحمت خاصہ سے دنیا و دین میں کامیاب کرے۔ آمین افسوس کہ مجھے آپ کے حزن و اندوہ کی تفاصیل پر اطلاع نہیں ملی اور نہ شدت مرض سے مطلع ہوں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ اگر مناس تصور فرمادیں تو کسی قدر اس عاجز کو اپنے ہموم و غموم کا ہمراز کر دیں۔ نوکری قبول کرنے میں آنمخدوم نے بہت ہی