مارا جائے اور صلیب پر کھینچا جائے کیونکہ اگر یہی منظور ہوتا تو ساری رات اس بلا کے دفعہ کرنے کیلئے کیوں روتا رہتا اور رو رو کر کیوں یہ دعا کرتا کہ اے ابّا! اے باپ!! تجھ سے سب کچھ ہو سکتا ہے یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے بلکہ سچ یہی ہے کہ مسیح بغیر اپنی مرضی کے ناگہانی طور پر پکڑا گیا اور اس نے مرتے وقت بھی رو رو کر یہی دعا کی کہ ایلی ایلی کما سبقتنی کہ اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ اس سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ مسیح زندہ رہنا اور کچھ اَوْر دن دنیا میں قیام کرنا چاہتا تھا اور اس کی روح نہایت بے قراری سے تڑپ رہی تھی کہ کسی طرح اس کی جان بچ جائے لیکن بلا مرضی اس کے یہ سفر اس کو پیش آ گیا تھا اور نیز یہ بھی غور کرنے کی جگہ ہے کہ قوم کے لئے اس طریقہ پر مرنے سے جیسا کہ عیسائیوں نے تجویز کیا ہے۔ مسیح کو کیا حاصل تھا اور قوم کو اُس سے کیا فائدہ اگر وہ زندہ رہتا تو اپنی قوم میں بڑی بڑی اصلاحیں کرتا بڑے بڑے عیب اوّل سے دور کر کے دکھاتا۔ مگر اس کی موت نے کیا کر کے دکھایا بجز اس کے کہ اس کے بے وقت مرنے سے صدہا فتنے پیدا ہوئے اور ایسی خرابیاں ظہور میں آئیں جن کی وجہ سے ایک عالم ہلاک ہو گیا۔ یہ سچ ہے کہ جوانمرد لوگ قوم کی بھلائی کیلئے اپنی جان بھی فدا کر دیتے ہیں یا قوم کے بچاؤ کے لئے جان کو معرض ہلاکت میں ڈالتے ہیں مگر نہ ایسے لغو اور بیہودہ طور پر جو مسیح کی نسبت بیان کیا جاتا ہے بلکہ جو شخص دانشمند طور سے قوم کے لئے جان دیتا ہے یا جان کو معرض برکت میں ڈالتا ہے وہ تو معقول اور پسندیدہ اور کارآمد اور صریح مفید طریقوں میں سے کوئی ایسا اعلیٰ اور بدیحی النفع طریقہ فدا ہونے کا اختیار کرتا ہے جس طریقے کے استعمال سے گو اس کو تکلیف پہنچ جائے یا جان ہی جائے۔ یہ تو نہیں کہ پھانسی لے کر یا زہر کھا کر یا کسی کوئیں میں گرنے سے خود کشی کا مرتکب ہو اور پھر یہ خیال کرے کہ میری خود کشی قوم کے لئے بہبودی کا موجب ہوگی۔ ایسی حرکت تو دیوانی کا کام ہے نہ عقلمندوں دینداروں کا بلکہ یہ موت موتِ احترام ہے اور بجز سخت جاہل اور سادہ لوح کے کئی اس کا ارادہ نہیں کرتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ کامل اور اوالوالعزم آدمی کا مرنا بجز اُس حالت کے کہ بہتوں کے بچاؤ کے لئے کسی معقول اور معروف طریق پر مرنا ہی پڑے قوم کے لئے اچھا نہیں بلکہ بڑی مصیبت اور ماتم کی جگہ ہے اور ایسا شخص جس کی ذات سے