وقوع میں آئیں قرآن شریف کے ایک ذرہ شہادت انجیلوں کے ایک تودہ عظیم سے جو مسیح کے اعجاز وغیرہ کے بارے میں ہو ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے؟ اسی وجہ سے کہ خود باقرار تمام محقق پادریوں کے انجیلوں کا بیان خود حواریوں کا اپنا ہی کلام ہے اور پھر اپنا چشم دید بھی نہیں اور نہ کوئی سلسلہ راویوں کا پیش کیا ہے اور نہ کہیں ذاتی مشاہدہ کا دعویٰ کیا۔ لیکن قرآن شریف میں اعجازات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ خاص خدائے صادق و قدوس کی پاک شہادت ہے۔ اگر وہ صرف ایک ہی آیت ہوتی تب بھی کافی ہوتی۔ مگر الحمدللہ کہ ان شہادتوں سے سارا قرآن شریف بھرا ہوا ہے اب موازنہ کرنا چاہئے کہ کجا خدا تعالیٰ کی پاک شہادت جس میں کذب ممکن نہیں اور کجا دیدہ جھوٹ اور مبالغہ آمیر شہادتیں۔ بہ نزدیک دانائے بیدار دل جوئے سیم بہتر ز صد تودہ گل افترائی باتوں پر کیوں تعجب کرنا چاہئے ایسا بہت کچھ ہوا ہے اور ہوتا ہے عیسائیوں کو آپ اقرار ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ابتدائی زمانوں میں اپنی طرف سے کتابیں لکھ کر بہت کچھ کمالات اپنے بزرگوں کے ان میں لکھ کر پھر خدا تعالیٰ کی طرف اُن کو منسوب کرتے رہے ہیں اور دعویٰ کر دیا جاتا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کتابیں ہیں۔ پس جب کہ قدیم عادت عیسائیوں اور یہودیوں کی یہی جعلسازی چلی آئی ہے تو پھر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ متی وغیرہ انجیلوں کو اس عادت سے کیوں باہر رکھا جاوے حالانکہ اس ساہوکار کی طرح اس کا روزنامچہ اور بہی کھاتہ بوجہ صریح تناقض اور مشکوکیت سے پوشیدہ حال کو ظاہر کر رہا ہو ہر چہار انجیلوں سے وہ کارستانی ظاہر ہو رہی ہے جس کو انہوں نے چھپانا چاہتا تھا۔ اسی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں غور کرنے والوں کی طبیعتوں میں ایک طوفان شکوک پیدا ہو گیا اور جس ناقص اور متغیر اور مجسم خدا کی طرف انجیل رہنمائی کر رہی ہے اس کے قبول کرنے سے وہ دہریہ رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ میرے ایک دوست فاضل انگریز نے امریکہ سے بذریعہ اپنی کئی چٹھیوں کے مجھے خبر دی ہے کہ ان ملکوں میں دانشمندوں میں سے