زمین و آسمان کے عجائبات تو دنیا میں سما گئے مگر مسیح کی تین یا اڑھائی برس کی سوانح دنیا میں سما نہیں سکتی۔ ایسے مبالغے کرنے والے لوگوں کی روایت پر کیونکر اعتبار کر لیا جاوے۔ ہندوؤں نے بھی اپنے اوتاروں کی نسبت ایسی ہی کتابیں تالیف کی تھیں اور اسی طرح خوب جوڑ جوڑ سے ملا کر جھوٹ کا پل باندھا تھا۔ سو اس قوم پر بھی اس افترا کا نہایت قوی اثر پڑا اور اس سرے سے ملک کے اس سرے تک رام رام اور کرشن کرشن دلوں میں رچ گیا۔ بات یہ ہے کہ مرتب کردہ کتابیں جن میں بہت سا افتراء بھرا ہوا ہو اُن قبروں کی طرح ہوتے ہیں جو باہر سے خوب سفید کی جائیں اور چمکائی جائیں پر اندر کچھ ہو اندر کا حال ان بے خبر لوگوں کو کیا معلوم ہو سکتا ہے جو صدہا برسوں کے بعد پیدا ہوئے اور بنی بنائی کتابیں اور بے لوث ظاہر کر کے ان کو دی گئیں کہ گویا وہ اسی صورت اور وضح کے ساتھ آسمان سے اُتری ہیں۔ سو وہ کیا جانتے ہیں کہ دراصل یہ مجموعہ کس طرح تیار کیا گیا۔ دنیا میں ایسی تیز نگاہیں جو پردوں کو چیرتی ہوئی اندر گھسی جائیں اور اصل حقیقت پراطلاع پا لیں اور چور کو پکڑ لیں بہت کم ہیں اور افتراء کے جادو سے متاثر ہونے والی روحیں اس قدر ہیں جن کا اندازہ کرنا مشکل ہے اسی وجہ سے ایک عالم تباہ ہو گیا اور ہوتا جاتا ہے نادانوں نے ثبوت یا عدم ثبوت کے ضروری مسئلہ پر کچھ بھی غور نہیں کی اور انسانی منصوبوں اور بندشوں کا جو ایک مستمرہ طریقہ اور نیچرلی امر ہے جو نوع انسان میں قدیم سے چلا آتا ہے اس سے چوکس رہنا نہیں چاہا اور یونہی شیطانی دام کو اپنے پر لے لیا۔ مکاروں نے اس شریر کیمیا گر کی طرح جو ایک سادہ لوح سے ہزار روپے نقد لے کر دس بیس لاکھ روپیہ کا سونا بنا دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ سچا اور پاک ایمان نادانوں کا کھویا اور ایک جھوٹی راستبازی اور جھوٹی برکتوں کا وعدہ دیا جن کا خارج میں کچھ بھی وجود نہیں اور نہ کچھ ثبوت آخر شرارتوں میں مکروں میں دنیا پرستوں میں نفس امارہ کی پیروی میں اپنے سے بدتر ان کو کر دیا۔ بالآخر یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور اعجازات اور پیشگوئیوں کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے