صاف طور پر کیوں مشتہر نہیں کر دیتے کہ بجز ان چند باتوں کے جو حضرت مسیح کے منہ سے نکلی ہیں۔ باقی جو کچھ اناجیل میں لکھا ہے وہ مؤلفین نے صرف اپنے خیال اور اپنی عقل اور فہم کے مطابق لکھا ہے جو غلطیوں سے مبرا متصور نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ پادری صاحبوں کی عام تحریروں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ رائے عام طور پر مشتہر بھی کی گئی ہے۔ یعنی بالاتفاق انجیلوں کے بارے میں یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جو کچھ تاریخی طور پر معجزات وغیرہ کا ذکر ان میں پایا جاتا ہے وہ کوئی الہامی امر نہیں بلکہ انجیل نویسوں نے اپنے قیاس یا سماعت وغیرہ وسائل خارجیہ سے لکھ دیا ہے غرض پادری صاحبوں نے اس اقرار سے ان بہت سے حملوں سے جو انجیلوں پر ہوتے ہیں اپنا پیچھا چھوڑانا چاہا ہے اور ہر ایک انجیل میں تقریباً دس حصے انسان کا کلام اور ایک حصہ خدا کا کلام مان لیا ہے اور ان اقرارات کی وجہ سے جو نقصان انہیں اُٹھانے پڑے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عیسوی معجزات ان کے ہاتھ سے گئے اور ان کا کوئی شافی کافی ثبوت ان کے پاس نہ رہا کیونکہ ہر چند انجیل نویسوں نے تاریخی طور پر فقط اپنی طرف سے مسیح کے معجزات انجیلوں میں لکھی ہیں مگر مسیح کا اپنا خالص بیان جو الہامی کہلاتا ہے حواریوں کے بیان سے صریح مبائن و مخالف معلوم ہوتا ہے بلکہ اُسی کی ضد و نقیض ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مسیح نے اپنے بیان میں جس کو الہامی کہا جاتا ہے جا بجا معجزات کے دکھلانے سے انکار ہی کیا ہے اور معجزات کے مانگنے والوں کو صاف جواب دے دیا ہے کہ تمہیں کوئی معجزہ دکھلایا نہیں جائے گا۔ چنانچہ ہیرو دیس نے بھی مسیح سے معجزہ مانگا تو اُس نے نہ دکھلایا اور بہت سے لوگوں نے اس کے نشان دیکھنے چاہے اور نشانوں کے بارے میں اس سے سوال بھی کیا مگر وہ صاف منکر ہو گیا اور کوئی نشان دکھلا نہ سکا بلکہ اس نے تمام رات جاگ کر خدا تعالیٰ سے یہ نشان مانگا کہ وہ یہودیوں کے ہاتھ سے محفوظ رہے تو یہ نشان بھی اس کو نہ ملا اور دعا ردّ کی گئی۔
پھر مصلوب ہونے کے بعد یہودیوں نے سچے دل سے کہا کہ اگر وہ اب