پکار رہی ہیں کہ کفّار نے ہلاکت اور عذاب کا نشان مانگا تھا۔ سو اوّل انہیں کہا گیا کہ دیکھو تم میں زندگی بخش نشان موجود ہے یعنی قرآن جو تم پر وارد ہو کر تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا بلکہ ہمیشہ کی حیات بخشتا ہے مگر جب عذاب کا نشان تم پر وارد ہوا تو وہ تمہیں ہلاک کرے گا پس کیوں ناحق اپنا مرنا ہی چاہتے ہو اور اگر تم عذاب ہی مانگتے ہو تو یاد رکھو کہ وہ بھی جلد آئے گا۔ پس اللہ جل شانہ نے ان آیات میں عذاب کے نشان کا وعدہ دیا ہے اور قرآن شریف میں جو رحمت کے نشان ہیں اور دلوں پر وارد ہو کر اپنا خارق عادت اثر ان پر ظاہر کرتے ہیں ان کی طرف توجہ دلائی۔ پر معترض کا یہ گمان کہ اس آیت میں لا نافیہ جنس معجزات کی نفی پر دلالت کرتا ہے۔ جس سے کل معجزات کی نفی لازم آتی ہے۔ محض صَرف ونحو سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ نفی کا اثر اُسی حد تک محدود ہوتا ہے۔ جو متکلّم کے ارادہ میں متعین ہوتی ہے۔ خواہ وہ ارادۃً تصریحاً بیان کیا گیا ہو یا اشارۃً۔ مثلاً کوئی کہے کہ اب سردی کا نام و نشان باقی نہیں رہا تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے بلدہ کی حالت موجودہ کے موافق کہا ہے اور گو اس نے بظاہر اپنے شہر کا نام بھی نہیں لیا مگر اس کے کلام سے یہ (بقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ) ہوئی زمین سرسبز ہوگئی۔ اس سے خدا کے خوف سے بندوں کی جلدیں کانپتی ہیں۔ پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل ذکر الٰہی کیلءآ نرم ہو جاتے ہیں یاد رکھو کہ قرآن سے دل اطمینان پکڑتے ہیں جو لوگ قرآن کے تابع ہو جائیں اُن کے دلوں میں ایمان لکھا جاتا ہے اور روح القدس انہیں ملتا ہے۔ روح القدس نے ہی قرآن کو اُتارا تا قرآن ایمانداروں کے دلوں کو مضبوط کرے اور مسلمین کیلئے ہدایت اور بشارت کا نشان ہو۔ ہم نے قرآن کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے والے ہیں یعنی کیا صورت کے لحاظ سے اور کیا خاصیت کے لحاظ سے ہمیشہ قرآن اپنی اصلی حالت پر رہے گا اور الٰہی حفاظت کا ان پر