عقل کے مطابق کر سکتے ہیں اور ایسی نئی فلسفی کونسی ہے۔ جس کے ذزیعے سے یہ لغویات معقول ٹھہر سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب آپ لوگ معقول طور پر اپنے خوش عقیدہ کی سچائی ثابت نہیں کر سکتے تو پھر لاچار ہو کر نقل کی طرف بھاگتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں ہم نے پہلی کتابوں میں یعنی بائبل میں دیکھی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم ان کو مانتے ہیں لیکن یہ جواب بھی سراسر پوچ اور بے معنی ہے کیونکہ ان کتابوں میں ہرگز یہ بات درج نہیں ہے کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے یا خود ربّ العلمین ہیں اور دوسرے لوگ خدا کے بندے ہیں بلکہ بائبل پر غور کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا کر کے کسی کو پکارنا یہ ان کتابوں کا عام محاورہ ہے۔ بلکہ بعض جگہ خدا کی بیٹیاں بھی لکھی ہیں اور ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ تم سب خدا ہو۔ تو پھر اس حالت میں حضرت مسیح کی کیا خصوصیت رہی ماسوا اس کے ہر ایک عاقل جانتا ہے کہ منقولات اور اخبار میں صدق اور کذب اور تغیر اور تبدل کا احتمال ہے۔ خصوصاً جو جو صدمات عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں کو پہنچے ہیں اور جن جن خیانتوں اور تحریفوں کاانہوں نے آپ اقرار کر لیاہے ان وجوہ سے یہ احتمال زیادہ تر قوی ہو جاتا ہے اور یہ بھی آپ کو سوچنا چاہئے کہ اگر ہر یک تحریر بغیر ثبوت باضابطہ کے قابل اعتبار ٹھہر سکتی ہے تو پھر آپ لوگ ان قصوں کو کیوں معتبر نہیں سمجھتے کہ جو ہندؤوں کے پستکوں میں رام چندر اور کرشن اور برہما اور بشن وغیرہ کے معجزات کی نسبت اور ان کے بُرے بُرے کاموں کے بارہ میں اب تک لکھے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ جیسے مہادیو کے لٹوں سے گنگا کا نکلنا اور مہادیو کا پہاڑ کو اُٹھالینا اور ایسا ہی ارجن کے بھائی راجہ پلیہم کے مقابل پر مہادیو کا کشتی کیلئے آنا جس کی پرانوں میںیہ کتھا لکھی ہے کہ مہادیو جی ملہنسی کا روپ دھار کر راجہ پلیہم کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ پلیہم نے چاہا کہ ان سے لڑے۔ مہادیو جی بھاگ نکلے۔ بیہم نے ان کا پیچھا کیا تب وہ زمین میں گھس گئی۔ بیہم نے دیکھ کربڑی زور سے ان کی پونچھ پکڑ لی اور کہا کہ اب میں نہ جانے دوں گا۔ سو پونچھ اور پچھلا دھڑ تو بیہم کے ہاتھ میں رہ گیا اور منہ نیپال کے پہاڑ میں جا نکلا۔ اسی وجہ سے منہ کی پوجا نیپال میں ہوتی ہے اور پونچھ اور پچھلے دھڑ کی کدار ناتھ میں۔ اب دیکھئے کہ جو کچھ عقیدہ آپ نے بنا رکھا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کی روح حضرت مریم کے