بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم بعد ماوجب۔ آپ کا عنایت نامہ جس پر کوئی تاریخ درج نہیں بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا آپ نے پہلے تو بے تعلق اپنے خط میں یہ قصہ چھیڑ دیا ہے کہ حقیقت میں خدائے قادر مطلق خالق و مالک ارض و سما مسیح ہے اور وہی نجات دہندہ ہے لیکن میں سوچ میں ہوں کہ آپ صاحبوں کی طبیعت کیونکر گوارا کر لیتی ہے کہ ایک آدم زاد خاکی نہاد عاجز بندہ کی نسبت آپ لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ وہی ہمارا پیدا کنندہ اور ربّ العلمین ہے یہ خیال آپ کا حضرت مسیح کی نسبت ایسا ہی ہے جیسے ہندو لوگ راجہ رامچند کی نسبت رکھتے ہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ ہندو لوگ کشلیا کے بیٹھے کو اپنا پرمیشر بنا رہے ہیں اور آپ حضرت مریم صدیقہ کے صاحبزادہ کو۔ نہ ہندؤوں نے کبھی ثابت کر دکھایا کہ زمین و آسمان میں کوئی ٹکڑا کسی مخلوق کا رامچندر یا کرشن نے پیدا کیا ہے اور نہ آج تک آپ لوگوں نے حضرت مسیح کی نسبت کچھ ایسا ثبوت دیا۔ افسوس کہ جو قومیں عقل اور ادراک اور فہم و قیاس کے آپ صاحبوں کی فطرت کو عطا کی گئی تھیں آپ لوگوں نے ایک ذرا ان کا قدر نہیں کیا اور علوم طبعی اور فلسفی کو پڑھ پڑھا کر ڈبودیا اور عقلی علوم کی روشنی آپ لوگوں کے دلوں پر ایک ذرا نہ پڑی سادی اور ناسمجھی کے زمانہ میں جو کچھ گھڑا گیا انہیں باتوں کو آپ لوگوں نے اب تک اپنا دستور العمل بنا رکھا۔ کاش اس زمانہ میں دو چار دن کیلئے حضرت مسیح اور راجہ رامچندر اور کرشن وبدھ وغیرہ کہ جن کو مخلوق پرستوں نے خدا بنایا ہوا ہے پھر دنیا میں اپنا درش کرا جاتے۔ تا خود ان لوگوں کا انصاف دلی ان ان کو ملزم کرتا کہ کیا ان آدمزادوں کو خدا خدا کر کے پکارنا چاہئے اور تعجب تو یہ ہے کہ باوجود ان تمام رسوائیوں کے جو آپ لوگوں کے عقاید میں پائی جاتی ہیں پھر آپ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے عقائد اور غیر متغیر جلال چھوڑ کر ایک عورت کے پیٹ میں حلول اور ناپاک راہ سے تولد پایا اور دکھ اور تکلیف اُٹھاتا رہا اور مصلوب ہو کر مر گیا اور پھر یہ کہ وہ تین بھی ہے اور ایک بھی اور انسان کامل بھی ہے اور خدائے کامل بھی۔ وہ ایسے عقائد کو کیونکہ