نہیں سمجھا اور اُس کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے۔ سو اگراس عاجز کی فریادیں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں۔ جو نور محمدی اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلا دیں۔ اس عاجز کے صادق دوستوں کی تعداد بھی تین چار سے زیادہ نہیں جن میں سے ایک آپ ہیں اور باقی لوگ لاپروا اور غافل ہیں بلکہ اکثر کے حالات ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ اپنی تیرہ باطنی کے باعث سے اس کارخانہ کو کسی مکر اور فریب پر مبنی سمجھتے ہیں اور اس کا مقصود اصلی دنیا ہی قرار دیتے ہیں کیونکہ خود جیفہ دنیا میں گرفتار ہیں۔ اس لئے اپنے حال پر قیاس کر لیتے ہیں۔ سو اُن کی روگردانی بھی خداوند کریم کی حکمت سے باہر نہیں۔ اس میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں جو پیچھے سے ظاہر ہوں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ مگر اپنے دوستوں کی نسبت اس عاجز کی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اُن کے صدق کا اجر بخشے اور اُن کو اپنی استقامت میں بہت مضبوط کرے چونکہ ہر طرف ایک زہرناک ہوا چل رہی ہے اس لئے صادقوں کو کسی قدر غم اُٹھانا پڑے گا اور اُس غم میں اُن کے لئے بہت اجر ہیں۔
(۹؍ فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۳۰؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ و نظر اللہ سرحمایۃٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بعد ہذا آنمخدوم کی سعی و کوششوں سے اس عاجز کو بہت مدد ملی ہے۔ یہ خداوند کریم کی عنایات میں سے ہے کہ اُس نے اپنے مخلص بندوں کو اس طرف ایمانی جوش بخشا ہے۔ سو چونکہ عمل وہی معتبر ہے جس کا خاتمہ بالخیر ہو اور صدق اور وفاداری سے انجام پذیر ہو اور اس پُر فتنہ زمانہ میں اخیر تک صدق اور وفا کو پہنچانا اور بدباطن لوگوں کے وساوس سے متاثر نہ ہونا سخت مشکل ہے۔ اس لئے خداوند کریم سے التجا ہے کہ وہ اس عاجز کے دوستوں کو جو ابھی تین چار سے زیادہ نہیں۔ آپ سکینت اور تسلی بخشے۔ زمانہ نہائت پُرآشوب ہے اور فریبوں اور مکاریوں کی افراط نے بدظنیوں اور بدگمانیوں کو افراط تک پہنچا دیا ہے۔ ایسے زمانہ میں صداقت کی روشنی ایک نئی بات ہے اور اُس پر وہ ہی قائم رہ سکتے ہیں جن کے دلوں کو خداوند کریم آپ مضبوط کرے اور چونکہ خداوند کریم کی بشارتوں میں تبدیلی نہیں اس لئے امید ہے کہ وہ اس ظلمت میں سے بہت سے نورانی دل پیدا کر کے دکھلا دے گا کہ وہ ہر چیز پر