اور آئین نہیں ہے۔یہان ہر ترقی تدریجی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ نری اتنی باتوں سے خوش نہیں ہوسکتا کہ ہم کہدیں ہم مسلمان ہیں یا مومن ہیں ؛ چنانچہ اس نے فرمایا ہے۔ احسب الناس ان یترکو اان یقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳) یعنی کیا یہ لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اتنا ہی کہنے پر راضی ہو جاوے اور یہ لوگ چھوڑ دیئے جاویں کہ وہ کہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی کوئی آزمائش نہ ہو۔یہ امر سنت اﷲ کے خلاف ہے کہ پھونک مار کر ولی اﷲ بنادیا جاوے۔اگر یہی سنت ہوتی تو پھر آنحضرت ایس اہی کرتے اور اپنے جان نثار صحابہؓ کو پھونک مار کر ولی بنا دیتے۔ ان کو امتحان میں ڈلوا کر اُن کے سر نہ کٹواتے اور خدا تعالی ان کی نسبت یہ نہ فرماتا منہم من قضیٰ نحبہ ومنہم من ینتظر وما بدلو اتبدیلا (الاحزاب : ۲۴) پس جب دنیا بغیر مشکلات اور محنت کے ہاتھ نہیں آتی تو عجیب بے وقوف ہے۔وہ انسان جو دین کو حلوۂ بے دو سمجھتا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ دین سہل ہے مگر ہر نعمت مشقت کو چاہتی ہے۔ بایں اسلام نے تو ایسی مشقت بھی نہیں رکھی۔ ہندوئوں میں دیکھو کہ ان کے جوگیوں اور سنیاسیوں کو کیا کای کرنا پڑتا ہے۔ کہیں ان کی کمریں ماری جاتی ہیں۔ کوئی ناخن بڑھاتا ہے۔ایسا ہی عیسائیوں میں رہبانیت تھی۔ اسلام نے ان باتوں کو نہیں رکھا بلکہ اس نے یہ تعلیم دی قد افلح من زکھا (الشمس : ۱۰) یعنی نجات پا گیا وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کیا۔ یعنی جس نے ہر قسم کی بدعت ،فسق وفجور، نفسانی جذبات سے خد ا تعالیٰ کے لیے الگ کر لیا اور ہر قسم کی نفسانی لذات کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف کو مقدم کر لیا۔ ایسا شخص فی الحقیقت نجات یافتہ ہے جو خدا تعالیٰ کو مقدم کرتا ہے اور دنیا اور اس کے تکلفات کو چھوڑتا ہے؎ٰ۔ اور پھر فرمایا قد خاب من دسھا (الشمس : ۱۱) مٹی کے برابر ہو گیا وہ شخص جس نے نفس کوآلودہ کر لیا یعنی جو زمین کی طرف جھک گیا۔ گویا یہ ایک ہی فقرہ قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسنا کس طرح خد اتعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے