جیلانی رحمۃاﷲ علیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی عارف ہو جاتا ہے تو اس کی عبادت کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ جب نفس مطمنہ ہو گیا تو ثواب کیسے رہا؟ نفس کی مخالفت کرنے سے ثواب تھا وہ اب رہی نہیں۔
بے صبر نہیں ہونا چاہئے
قرآن شریف میں ہے
ولمن خاف مقام ربہ جنتن (الرحمان : ۲۷)
یعنی وہ جنت میں داخل ہو گیا اور اس کا درجہ ثواب کا نہ رہا تو یہ بات بے صبری سے نہیں ملتی۔انسان کو یہاں تک صبر کرنا چاہئے کہ اس کا دل یقین کر لے کہ میرے جیسا کوئی صابر نہیں۔آخر خدا تعالیٰ مہربان ہو کر دروازہ کھول دیتا ہے اسی طرح ایک اور بزرگ کا قول ہے کہ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو تمام عبادتیں ساقط ہو جاتی ہیں اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ عبادات ترک کر دیتا ہے بلکہ یہ معنے ہیں کہ عبادات کی بجا آوری میں اسے جو تکلیف ہوتی تھی وہ ساقط ہو جاتی ہے اب عبادات محبوبات نفس میں شامل ہو گئیں جیسے کھانا پینا وغیرہ اس کی محبوبات نفس تھیں ایسا ہی نماز‘ روزہ ہو گیا۔خدا تعالیٰ جیسا وفادار اور کوئی نہیں۔دوستی اور اخلاص کا حق جیسے وہ ادا کر سکتا ہے اور کوئی نہیں کر سکتا انسان بڑے جوش والا ہے وہ صبر سے حقوق ادا نہیں کر سکتا جلدی بے صبر نہیں ہونا چاہئے۔
صحبت کا اثر
فرمایا :-
ہماری جماعت کو چاہئے کہ وقتاًفوقتاً ہمارے پاس آتے رہیں اور کچھ دن یہاں رہا کریں۔انسان کا دماغ جیسے خوشبو سے حصہ لیتا ہے ویسے ہی بدبو سے بھی حصہ لیتا ہے اسی طرح زہریلی صحبت کا اثر اس پر ہوتا ہے۔
مخالفین کی موجودہ حالت پر فرمایا کہ
مکہ معظمہ کی حالت کا تو کسی نے معائنہ نہیں کیا مگر اب اس وقت کی حالت دیکھ کر پتہ لگتا ہے کہ ایسا ہی حال اس وقت تھا۔