ہے اسی سے ایمان شروع ہوتا ہے اور اسی سے اس کی آبپاشی ہوتی ہے۔اور نفسانی جذبات دبتے ہیں۔ سلسلہ کی ترقی پھر اعجاز احمدی اور اپنے سلسلہ کی بے نظیر ترقی پر فرمایا کہ :- اگر کذاب کا یہ حال ہے تو پھر صدق کی مٹی پلید ہے ان لوگوں میں ایسی روحیں بھی ہیں۔جن پر ایک سخت انقلاب آئے گا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابو سفیان ایک بڑا ضعیف القلب اور کم فراست والا آدمی تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر فتح پائی تو اسے کہا کہ تجھ پرواویلا۔؎ٰ اس نے جواب میں کہا کہ اب سمجھ آگئی ہے کہ تیرا خدا سچا ہے اگر ان بتوں میں کچھ ہوتا تو یہ ہماری اس وقت مدد کرتے۔پھر جب اسے کہا گیا کہ تو میری نبوت پر ایمان لاتا ہے؟ توا س نے تردد ظاہر کیا اور اس کی سمجھ میں توحید آئی۔نبوت نہ آئی۔بعض مادے ہی ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں فراست کم ہوتی ہے جو توحید کی دلیل تھی وہی نبوت کی دلیل تھی مگر ابو سفیان اس میں تفریق کرتا رہا۔اسی طرح سعید لوگوں کے دلوں میں اثر پڑ جائے گا سب ایک طبقہ کے انسان نہیں ہوتے۔کوئی اول جیسے صدیق اکبر ؓ۔کوئی اوسط درجہ کے۔کوئی آخری درجہ کے۔ میری ایک پرانی وخی ہے یخرون علی الاذقان سجدا ربنا اغفرلنا انا کنا خاطئین یعنی پیچھے آنے والے یہ کہیں گے ان کے لئے آگے خوشخبری بھی ہے لا تثریب علیکم الیوم یغفر اﷲ لکم وھو ارحم الراحمین محمد حسین کو فرعون کہا گیا ہے اور نذیر حسین کو ہامان۔ہامان کو ایمان نصیب نہ ہوا۔اسی طرح نذیر حسین بے نصیب گیا اور میرا استنباط یہ ہے کہ جس طرح فرعون نے امنت انہ لا الہ الاالذی امنت بہ بنو ااسرائیل (یونس : ۹۱) کہا تھا ویسے ہی یہ (محمد حسین) بھی کہے گا۔محی الدین صاحب ابن عربی نے لکھا ہے