(الرعد : ۴۲) یعنی ہم دور دور سے زمین کو گھٹا تے چلے آتے ہیں یہ عادت اﷲ ہے کہ اول عذاب ایسے لوگوں سے شروع ہوتا ہے جو دور دور ہوتے ہیں اور ضعیف اور کمزور ہوتے ہیں۔بیوقوف یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ صرف انہیں کے لئے ہے ہمارے نہیں مگر عذاب لپک کر ان تک پہنچتا ہے جن کو خبر نہیں ہوتی اور بے پروا ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کی اس میں حکمتیں ہوتی ہیں وہ چاہتا ہے کہ یہ لوگ اور شوخی کر لیں لوگوں کو اس طاعون کی خبر نہیں ہے وہ مجھے لکھتے ہیں اور اشتہاروں میں شائع کرتے ہیں کہ یہ بھی ایک مرض ہے جس کا علاج ہو سکتا ہے اب ان پر لازم ہے کہ ڈاکٹروں سے علاج کروائیں۔آخر سول (CIVIL)نے لکھ دیا کہ ہم کہاں تک اس پر پردہ ڈالیں خود گورنمنٹ کو بھی اس ٹیکہ سے تکلیف پہنچی ہے۔ طاعون کی اقسام فرمایا :- طاعون تین قسم کی ہے ایک خفیف جس میں صرف گلٹی نکلتی ہے اور تپ نہیں ہوتا۔دوسری اس سے تیز کہ اس میں گلٹی کے ساتھ تپ بھی ہوتا ہے تیسری سب سے تیزا س میں تپ نہ گلٹی۔بس آدمی سویا اور مرگیا ہندوستان کے بعض دیہات میں ایسا ہی ہوا ہے کہ دس آدمی رات کو سوئے تو صبح کو مرے ہوئے پائے گئے۔اس کا اصل باعث طعن ہے یہ لوگ ٹھٹھہ کرتے ہیں مگر ان کو پتہ لگ جائے گا جو مخالف بکواس کیا کرتے ہیں ان پر یک لخت پتھر نہیں پڑا کرتے اول ان کو دور سے آگ دکھائی جاتی ہے تا کہ وہ توبہ کریں۔ خدا تعالیٰ اس وقت اپنا چہرہ دکھلانا چاہتا ہے شیخ نور احمد صاحب نے عرض کی حضور اب بھی مخالف کہتے ہیں کہ ہمیں طاعون کیوں نہیں ہوتی۔ فرمایا:- قرآن میں بھی یہی لکھا ہے کہ وہ لوگ خود عذاب طلب کرتے تھے کمبخت یہ نہیں کہتے کہ دعا کرو کہ ہمیں ہدایت ہو جائے طاعون ہی مانگتی ہیں دراصل یہ لوگ دہریہ ہیں خدا تپر ان لوگوں کو ایمان نہیں ہے خدا تعالیٰ اس وقت اپنا چہرہ دکھلانا چاہتا ہے۔اس وقت جس قدر عیاشی‘فسق و فجور۔حقوق العباد میں خصم وغیرہ ہو رہے ہیں کیا اس کی کوئی حد ہے۔ہمیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ دکانداروں کی طرح ایک دوکاندار ہے مگر عنقریب خدا تعالیٰ ان کو بتلا دے گا کہ دکان تو ہے مگر خدا تعالیٰ کی دکان ہے ایک صریح کشمکش آسمان سے ہے اور صریح خدا تعالیٰ کے ارادے معلوم ہیں کہ