ہے اور یا یہ کہ آئندہ توبہ نہ کریں گے اور یہ معنے بھی اس کے ہیں لایومنون باﷲ اور یہ مطلب بھی اس سے ہے کہ اس نے یہ کام اچھا نہیں کیا اﷲ تعالیٰ پر یہ افتراء اور منصوبہ باندھا ارو اﷲشدید العقاب طاہر کرتا ہے کہ اس کا انجام اچھا نہ ہوگا اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگا حقیقت میں یہ بڑی شوخی ہے کہ خدائی کا دعویٰ کیا جائے۔
وہابیوں اور چکڑالویوں کا افراط و تفریط
چکڑالوی کا ذکر آنے پر معلوم ہوا کہ اس نے نماز میں بھی کچھ ردوبدل کی ہے التحیات اور درود شریف کو نکال دیا ہے اور بھی بعض تبدیلیاں کی ہیں ۔حضرت اقدس نے چکڑالوی کے فتنہ کو خطرناک قرار دیا اور آپ کی رحمت اور رحیمیت اسلامی نے تقاضا کیا کہ اس کے متعلق ایک اشتہار بطور محاکمہ کے لکھا جاوے جس میں یہ دکھایا جائے کہ اس نے اور مولوی محمد حسین نے افراط اور تفریط کی راہ اختیار کی ہے اور یہ خد اتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو صراط مستقیم پر رکھا ہے۔
فرمایا :- نبی ہمیشہ دو چیزیں لے کر آتے ہیں۔کتاب اور سنت۔ایک خدا کا کلام ہوتا ہے اور دوسرے سنت۔یعنی اس کتاب پر خود عمل کرکے دکھادیتے ہیں دنیا کے کام بھی بغیر اس کے نہیں چل سکتے دقیق مسائل جو استاد بتاتا ہے پھر اس کو حل کرکے بھی دکھادیتا ہے پس جیسے کلام اﷲ یقینی ہے سنت بھی یقینی ہے۔
خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں صراط مستقیم پر کھڑا رکھا ہے وہابیوں نے افراط کی اور قرآن پر حدیث کو قاضی ٹھہرایا اور قرآن کو اس کے ئگے مسفیث کی طرح کھٹا کر دیا اور چکڑالوی نے تفریط کی کہ بالکل ہی حدیث کا انکار کر دیا۔اس سے فتنے اک اندیشہ ہے اس کی اصلاح ضروری ہے ہم کو خد اتعالیٰ نے حکم ٹھہرایا یہ اس لئے ہم ایک اشتہار کے ذریعہ اس غلطی کو ظاہر کریں گے اور مضمون پیچھے لکھیں گے۔اول خویش بعد درویش جس راہ پر خدا تعالیٰ نے ہم کو چلایا ہے اس پر اگر غور کیا جائے تو ایک لذت ٔتی ہے قرآن شریف نے کیا ٹھیک فیصلہ فرمایا
فبای حدیثا بعداﷲ وایتہ یومنون (الجاشہ : ۷)
یہ ایک قسم کی پیشگوئی ہے جو ان وہابیوں کے متعلق ہے اور سنت کی نفی کرنے والوں کے لئے فرمایا
ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ (آل عمران : ۳۲) ؎ٰ