۱۸۴۔ نشان۔ ایک دفعہ میری بیوی کے حقیقی بھائی سید محمد اسمٰعیل کا جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن ہے۔ پٹیالہ سے خط آیا جس میں لکھا تھا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور خط کے اخیر میں یہ بھی لکھا تھا کہ اسحاق میرا چھوٹا بھائی بھی فوت ہو گیا ہے اور تاکید کی تھی کہ خط کو دیکھتے ہی چلے آویں اور اتفاق ایسا ہوا کہ ایسے وقت میں وہ خط پہنچا کہ جب خود میرے گھر کے لوگ سخت تپ سے بیمار تھے اور مجھے خوف تھا کہ اگر اُن کو اِس خط کے مضمون سے اطلاع دی جائے گی تو اندیشہ جان ہے۔ تب میرا دل نہایت اضطراب میں پڑا اُس اضطراب کی حالت میں مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ یہ خبر وفات صحیح نہیں اور میں نے اس الہام سے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور شیخ حامد علی اور بہت سے لوگوں کو ا طلاع دی اور پھر بعد اس کے شیخ حامد علی کو جو میرا ملازم ہے پٹیالہ میںؔ بھیجا تو معلوم ہوا کہ درحقیقت وہ خبر خلاف واقعہ تھی۔ سوچنے کا مقام ہے کہ بغیر خدا تعالیٰ کے کسی کو اُمور غیبیہ پر اطلاع نہیں ہوتی اور یہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسی غیب کی خبر دی جس نے خط کے مضمون کو ردّ کر دیا۔
۱۸۵۔ نشان۔ بعض نشان اِس قسم کے ہوتے ہیں کہ اُن کے وقوع میں ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں ہوتی کہ فی الفور واقع ہو جاتے ہیں اور ان میں گواہ کا پیدا ہونا کم میسر آتا ہے اِسی قسم کا یہ ایک نشان ہے کہ ایک دن بعد نماز صبح میرے پر کشفی حالت طاری ہوئی اور میں نے اُس وقت اس کشفی حالت میں دیکھا کہ میرا لڑکا مبارک احمد باہر سے آیا ہے اور میرے قریب جو ایک چٹائی پڑی ہوئی تھی اُس کے ساتھ پیر پھسل کر گر پڑا ہے اور اُس کو بہت چوٹ لگی ہے اور تمام کُرتہ خون سے بھر گیا ہے میں نے اُس وقت مبارک احمد کی والدہ کے پاس جو اُس وقت میرے پاس کھڑی تھیں یہ کشف بیان کیا تو ابھی میں بیان ہی کر چکا تھا کہ مبارک احمد ایک طرف سے دوڑاآیا جب چٹائی کے پاس پہنچا تو چٹائی سے پیر پھسل کر گر پڑا اور سخت چوٹ آئی اور تمام کُرتہ خون سے بھر گیا۔ اور