فَضَّلنا بعضھم علٰی بعض۔ اجتبیناھم واصطفیناھم کذالک لیکون اٰیۃً للمؤمنین۔ ام حسبتم انّ اصحابَ الکھف والرقیم کانوامن اٰیاتنا عجبًا۔ قل ھو اللّٰہ عجیب ۔ کلّ یوم ھو فی شان ففھّمناھا سلیمان۔ وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ظلمًا وعلوّا۔ قل جاء کم نورٌ من اللّٰہ فلا تکفروا ان کنتم مؤمنین۔ سلام علٰی ابراھیم۔ صافیناہ ونجیناہ من الغم۔ تفردنا* بذالک ۔ فاتخذوا من مقام ابراھیم مُصلّٰی۔(دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۶ سے صفحہ ۵۶۱ تک) ترجمہ۔ اے خدا میں دُعا کرتا ہوں کہ مجھے نجات بخش اور مشکلات سے رہائی فرما۔ ہم نے نجات دے دی۔ یہ دونوں فقرے عبرانی زبان میں ہیں اور یہ ایک پیشگوئی ہے جو دُعا کی صورت میں کی گئی اور پھر دعا کا قبول ہونا ظاہر کیا گیا اور اس کاحاصل مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ مشکلات ہیں یعنی تنہائی بیکسی ناداری کسی آئندہ زمانہ میں وہ دُور کر دی جائیں گی۔ چنانچہ پچیس۲۵ برس کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور اس زمانہ میں ان مشکلات کا نام و نشان نہ رہا۔ اور پھر دوسری پیشگوئی انگریزی زبان میں ہے اور میں اس زبان سے واقف نہیں۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے جو اِس زبان میں وحی الٰہی نازل ہوئی۔ ترجمہ یہ ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ میں تمہیں ایک بڑا گروہ اسلام کا دوں گا۔ ایک گروہ تو اُن میں سے پہلے مسلمانوں میں سے ہوگا اور دوسرا گروہ اُن لوگوں میں سے ہو گا جو دوسری قوموں میں سے ہوں گے یعنی ہندوؤں میں سے یا یورپ کے عیسائیوں میں سے یا امریکہ کے عیسائیوں میں سے یا کسی اور قوم میں سے چنانچہ ہندو مذہب کے گروہ میں سے بہت سے لوگ مشرف باسلام ہوکر ترجمہ: یعنی سچی اور صافی اور کامل محبت جو ہم کو اس بندہ سے ہے دوسروں کو نہیں ہم اس امر میں منفرد ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ محبت بقدر معرفت ہوتی ہے۔ منہ