پس جب دنیا بغیر مشکلات اور محنت کے ہاتھ نہیں آتی تو عجب بے وقوف ہے وہ انسان جو دین کو حلوائے بے دُود سمجھتا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ دین سہل ہے مگر ہر نعمت مشقت کو چاہتی ہے۔ باایں اسلام نے تو ایسی مشقت بھی نہیں رکھی۔ ہندوؤں میں دیکھو کہ اُن کے جوگیوں اور سنیاسیوں کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں اُن کی کمریں ماری جاتی ہیں۔ کوئی ناخن بڑھاتا ہے۔ایسا ہی عیسائیوں میں رہبانیت تھی۔ اسلام نے ان باتوں کو نہیں رکھا بلکہ اس نے یہ تعلیم دی ۔3۲ ؂ ۔ یعنی نجات پا گیا وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کیا۔ یعنی جس نے ہر ایک قسم کی بدعت ،فسق وفجور، نفسانی جذبات سے خد ا تعالیٰ کے لیے الگ کر لیا۔ اور ہر قسم کینفسانی لذات کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں تکالیف کو مقدم کر لیا۔ ایسا شخص فی الحقیقت نجات یافتہ ہے جو خدا تعالیٰ کو مقدم کرتا ہے اور دنیا اور اس کے تکلّفات کو چھوڑتا ہے*۔اور پھر فرمایا۔ 3 ۳؂ ۔ مٹی کے برابر ہو گیا وہ شخص جس نے نفس کوآلودہ کر لیا۔ یعنی جو زمین کی طرف جھک گیا۔ گویا یہ ایک ہی فقرہ قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کس طرح خداتعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے کہ جب تک انسان قویٰ بشریہ کے ُ برے طریق کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک خد انہیں ملتا۔ دنیا کی گندگیوں سے نکلنا چاہتے ہو اور خدا تعالیٰ کو ملنا چاہتے ہو تو ان لذّات کو ترک کرو۔ورنہ ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں ایں خیال است و محال است و جنوں انسان کی فطرت میں دراصل بدی نہ تھی اور نہ کوئی چیز ُ بری ہے لیکن بد استعمالی ُ بری حاشیہ۔بدر سے۔ جس نے دین کو مقدم کیا وہ خد اکے ساتھ مل گیا۔ نفس کو خاک کے ساتھ ملا دینا چاہیے۔ خد اتعالیٰ کو ہر بات میں مقدم کرنا چاہیے۔ یہی دین کا خلاصہ ہے جتنے ُ برے طریق ہیں اُن سب کو ترک کر دینا چاہیے۔تب خد املتا ہے۔ ( بدر جلد ۲ نمبر ۶ صفحہ ۳ مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ء ؁)