پھر کہوں گا کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں جو عدم معرفت سے پیدا ہوتی ہیں۔ کسبِ کمالُ کن کہ عزیز ے جہاں شوی یہ نقص کے نتیجے ہیں۔ کمال ایسے ثمرات پید انہیں کرتا۔ ایک شخص اگراپنی موٹی سی کھدر کی چادر میں کوئی توپابھرلے تو اس سے وہ درزی نہیں بن جاوے گا اور یہ لازم نہ آئے گا کہ اعلیٰ درجہ کے ریشمی کپڑے بھی وہ سی لے گا۔اگر اس کو ایسے کپڑے دیئے جاویں تو نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ انہیں برباد کردے گا۔ پس ایسی نیکی جس میں گند ملا ہوا ہو کسی کام کی نہیں۔ خد اتعالیٰ کے حضور اس کی کچھ قدر نہیں۔لیکن یہ لوگ اس پر ناز کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ نجات چاہتے ہیں۔ اگر اخلاص ہو تو اﷲ تعالیٰ تو ایک ذرہ بھی کسی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ اس نے تو خود فرمایا ہے۔33 ۱؂ اس لیے اگر ذرہ بھربھی نیکی ہو تو اﷲ تعالیٰ سے اس کا اجر پائے گا۔ پھرکیا وجہ ہے کہ اس قدر نیکی کرکے پھل نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس میں اخلاص نہیں آیاہے۔اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے جیسا کہ فرمایا۔ 33۲؂ ۔یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہیں* ۔ یہ لوگ ابدال ہوجاتے ہیں اور وہ اِس دنیا کے نہیں رہتے۔اُن کے ہر کام میں ایک خلوص اور اہلیت ہوتی ہے لیکن دنیا داروں کا تو یہ حال ہے کہ وہ خیرات بھی کرتے ہیں تو اس کے لیے تعریف اور تحسین چاہتے ہیں۔اگر کسی نیک کام میں کوئی چندہ دیتا ہے تو غرض یہ ہے کہ اخبارات میں اس کی تعریف ہو۔ لوگ تعریف کریں۔اس نیکی کو خد اتعالیٰ سے کیا تعلق؟ بہت لوگ شادیاں کرتے ہیں اُس وقت سارے گاؤں میں روٹی دیتے ہیں مگرخد اکے لیے نہیں صرف نمائش اور تعریف کے لیے۔ اگر ریانہ ہوتی اور محض شفقت علیٰ خلقِ اﷲ کے لحاظ سے یہ فعل ہوتا اور خالص خدا کے لیے تو ولی ہو جاتے ،لیکن چونکہ ان کاموں کو خد اتعالیٰ سے کوئی تعلق اور غرض نہیں ہوتا اس لئے کوئی نیک اوربابرکت اثر ان میں پیدا نہیں ہوتا۔