رَأس کلّ خطیءۃٍ نے بہت سے بچے دے دیئے ہیں۔ کوئی شخص عدالت میں جاتا ہے تو دو آنے لے کر جھوٹی گواہی دے دینے میں ذرا شرم و حیا نہیں کرتا۔کیا وکلاء قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ سارے کے سارے گواہ سچے پیش کرتے ہیں۔ آج دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے۔جس پہلو اور رنگ سے دیکھو۔ جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔جھوٹے مقدمہ کرنا توبات ہی کچھ نہیں جھوٹے اسناد بنا لیے جاتے ہیں۔ کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟اﷲ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو۔333 ۱؂ ۔ ُ بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے جیسااحمق انسان اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکا تا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لیے جھوٹ کو بت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بُت پرست بُت سے نجات چاہتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی۔ کیسی خرابی آکر پڑی ہے اگر کہا جاوے کہ کیوں بت پرست ہوتے ہو۔ اس نجاست کو چھوڑ دو توکہتے ہیں کہ کیونکر چھوڑ دیں اس کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا۔اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنی زندگی کا مدار سمجھتے ہیں مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ امر تسر ایک مضمون بھیجا۔ اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا۔ رلیارام کے وکیل ہند اخبار کے متعلق تھا۔میرے اس خط کو خلاف قانون ڈاکخانہ قرار دے کر مقدمہ بنایا گیا۔ وکلاء نے بھی کہا کہ اس میں بجز اس کے رہائی نہیں جو اس خط