ہوں کہ یہ صرف قلتِ تد ّ بر کا نتیجہ ہے جو کہا جاتا ہے کہ دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟اگر صرف ایک ہی بات ہوتی تو اس قدر محنت اٹھانے کی کیا حاجت تھی۔ ایک سلسلہ قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں جانتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ بار بار ظاہر کر چکا ہے کہ ایسی تاریکی چھاگئی ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ توحید جس کا ہمیں فخر تھا اور اسلام جس پر ناز کرتا تھا وہ صرف زبانوں پر رہ گئی ہے ورنہ عملی اور اعتقادی طور پر بہت ہی کم ہوں گے جو توحید کے قائل ہوں۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا تھا دنیا کی محبت نہ کرنا مگر اب ہر ایک دل اسی میں غرق ہے اور دین ایک بیکس اور یتیم کی طرح رہ گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طور پر فرمایا تھا۔ ’’حُبُّ الدُّنیا رَأس کُلّ خطیءۃٍ‘‘یہ کیسا پاک اور سچا کلمہ ہے مگر آج دیکھ لوہر ایک اس غلطی میں مبتلا ہے۔ ہمارے مخالف آریہ اور عیسائی اپنے مذاہب کی حقیقت کو خوب سمجھ چکے ہیں لیکن اب اُسے نبا ہنا چاہتے ہیں۔عیسائی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مذہب کے اصول و فروع اچھے نہیں۔ ایک انسان کو خدا بنانا ٹھیک نہیں۔اس زمانہ میں فلسفہ،طبعی اور سائنس کے علوم ترقی کر گئے ہیں اور لوگ خوب سمجھ گئے ہیں کہ مسیح بجز ایک ناتواں اور ضعیف انسان ہونے کے سوا کوئی اقتداری قوت اپنے اندر نہ رکھتا تھا ۔اور یہ نا ممکن ہے کہ ان علوم کو پڑھ کر خود اپنی ذات کا تجربہ رکھ کر اور مسیح کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کو دیکھ کر یہ اعتقاد رکھیں کہ وہ خدا تھا؟ ہر گز نہیں۔
شرک عورت سے شروع ہوا ہے اور عورت سے اس کی بنیاد پڑی ہے یعنی حَوّاسے جس نے خد اتعالیٰ کا حکم چھوڑ کر شیطان کا حکم مانا۔ اوراس شرکِ عظیم یعنی عیسائی مذہب کی حامی بھی عورتیں ہی ہیں۔درحقیقت عیسائی مذہب ایسا مذہب ہے کہ انسانی فطرت دور سے اس کو دھکے دیتی ہے اور وہ کبھی اسے قبول ہی نہیں کر سکتی۔ اگر درمیان دنیا نہ ہوتی تو عیسائیوں کا گروہ کثیر آج مسلمان ہو جاتا۔ بعض لوگ عیسائیوں میں مخفی مسلمان رہے ہیں اور انہوں