گوہیں بہت درندے انساں کے پوستیں میں
پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا یہی ہے
کِس دیں پہ ناز اُن کو جو وید* کے ہیں حامی
مذہب جو پھل سے خالی وہ کھوکھلا یہی ہے
اے آریو یہ کیا ہے کیوں دل بگڑ گیا ہے
اِن شوخیوں کو چھوڑو راہِ حیا یہی ہے
مجھ کو ہو کیوں ستاتے سَو افترا بناتے
بہتر تھا باز آتے دُور از بلا یہی ہے
جس کی دُعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر
ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے
اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دُکھانا
گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے
اِس دیں کی شان و شوکت یارب مجھے دکھادے
سب جھوٹے دیں مٹادے میری دُعا یہی ہے
کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے
تمام شد
یاد رہے کہ وید پر ہمارا کوئی حملہ نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کی تفسیر میں کیاکیا تصرف
کئے گئے آریہ ورت کے صدہا مذہب اپنے عقائد کا ویدوں پر ہی انحصار رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور باہم اُن کا سخت اختلاف ہے۔ پس ہم اس جگہ وید سے مراد صرف آریہ سماج والوں کی شائع کردہ تعلیمیں اور اصول لیتے ہیں۔ منہ
نوٹ:۔ ایڈیشن اول میں یہ حاشیہ تو موجود ہے لیکن اس شعرکی نشان دہی نہیں کی گئی جس پر یہ حاشیہ ہے۔ ہم نے مضمون کو دیکھ کر یہ نشان لگایا ہے۔ (ناشر)