اِس رہ میں اپنے قصّے تم کو مَیں کیا سُناؤں
دُکھ درد کے ہیں جھگڑے سب ماجرا یہی ہے
دل کر کے پارہ پارہ چاہوں میں اِک نظارہ
دیوانہ مت کہو تم عقلِ رسا یہی ہے
اے میرے یارجانی کر خود ہی مہربانی
مت کہہ کہ لَنْ تَرَانِیْ تجھ سے رجا یہی ہے
فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم میں جان کنی ہے
عاشق جہاں پہ مرتے وہ کربلا یہی ہے
تیری وفا ہے پوری ہم میں ہے عیبِ دُوری
طاعت بھی ہے ادھوری ہم پر بَلا یہی ہے
تجھ میں وفا ہے پیارے سچے ہیں عہد سارے
ہم جا پڑے کنارے جائے بُکا یہی ہے
ہم نے نہ عہد پالا یاری میں رخنہ ڈالا
پر تُو ہے فضل والا ہم پر کُھلا یہی ہے
اے میرے دل کے درماں ہجراں ہے تیرا سوزاں
کہتے ہیں جس کو دوزخ وہ جاں گزا یہی ہے
اِک دیں کی آفتوں کا غم کھا گیا ہے مجھ کو
سینہ پہ دشمنوں کے پتّھر پڑا یہی ہے
کیونکر تبہ وہ ہووے کیونکر فنا وہ ہووے
ظالم جو حق کا دشمن وہ سوچتا یہی ہے
ایسا زمانہ آیا جس نے غضب ہے ڈھایا
جو پیستی ہے دیں کو وہ آسیا یہی ہے
شادابی و لطافت اِس دیں کی کیا کہوں مَیں
سب خشک ہوگئے ہیں پُھولا پَھلا یہی ہے
آنکھیںؔ ہر ایک دیں کی بے نُور ہم نے پائیں
سُرمہ سے معرفت کے اِک سرمہ سا یہی ہے
لعلِ یمن بھی دیکھے دُرِّ عدن بھی دیکھے
سب جوہروں کو دیکھا دل میں جچا یہی ہے
اِنکار کر کے اِس سے پچھتاؤگے بہت تم
بنتا ہے جس سے سونا وہ کیمیا یہی ہے
پر آریوں کی آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ایسی
وہ گالیوں پہ اُترے دل میں پڑا یہی ہے
بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بدزبان ہے
جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا یہی ہے