انہ خارج خلۃ بین الشام والعراق فعاث یمینًا وعاث شمالًا یا عباداللّٰہ فاثبتوا قلنا یا رسول اللّٰہ ما لبثہ فی الارض قال اربعون یومًا، یوم کسنۃ و یوم کشھر ویوم کجمعۃ وسائر ایامہ کایامکم، قلنا یا رسول اللّٰہ فذالک الیوم الذی کسنۃ اتکفینا فیہ صلٰوۃ یومٍ۔ قال لا اقدروا لہ قدرہ۔ قلنا یا رسول اللّٰہ وما اسراعہ فی الارض۔ قالؔ کالغیث استدبرتہ الریح فیاتی علی القوم فیدعوھم فیؤمنون بہ۔ فیامر السماء فتمطر والارض فتنبت فتروح علیھم سارحتھم اطول ما کانت
آنحضرت صلعم نے اس کا حلیہ بیان کرنے کے وقت لفظ کَأَ نِّیْ یعنی گویا کا لفظ بتا دیا تا اس بات پر دلالت کرے کہ یہ رؤیت حقیقی رؤیت نہیں بلکہ ایک امر تعبیر طلب ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اسی پر صحاح سِتّہ کی بہت سی حدیثیں یقینی اور قطعی دلالت کررہی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حضرت عیسیٰ اور دجا ل کی نسبت امور معلوم ہوئے تھے وہ حقیقت میں سب مکاشفات نبویہ تھے جو اپنے اپنے محل پر مناسب تاویل و تعبیر رکھتے ہیں اُنہیں میں سے یہ دمشقی حدیث بھی ہے جو مسلم نے بیان کی ہے جس کا اس وقت ہم ترجمہ کر رہے ہیں اور ہمارے اس بیان پر کہ یہ تما م پیشگوئیاں مکاشفات نبویہ ہیں اور رؤیا صالحہ کی طرح بالتزام قرائن محتاج تعبیر ہیں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیانات مقدسہ شاہد ناطق ہیں۔ جیسا کہ یہ حدیث مندرجہ ذیل جو صحیحین میں درج ہے اور وہ یہ ہے۔
وعن عبداللّٰہ بن عمر اَنّ رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم قال رایتُنی اللیلۃَ عند الکعبۃ فرأیت رجلا اٰدم کاحسن ما انت رأي من اُدم الرجال لہ لِمّۃ کاحسن ماانت راءٍ من اللمم قد رجّلھا فھی تقطر ماءً متکءًا علٰی عواتق رجلین یطوف بالبیت فسألتُ من ھذا فقالوا ھذاالمسیح ابن مریم قال ثم اذا انا برجل جعدٍ قططٍ اعورالعین الیمنٰی کان عینہ عنبۃ طافیۃ کاشبہ من رأیتُ